021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غلطی سے بیٹی کو چُھونے کا حکم
70575طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

اگر کسی کمرے میں زیادہ  جگہ نہ ہونے کی وجہ سے تمام بچے اوروالدین ایک کمرے میں رہتے ہوں اور باپ نے غلطی سے بیٹی کو بیوی سمجھ کر صرف ہاتھ سے چُھو لیا تو کیا بیوی کو طلاق ہو جائے گی؟ اگر ہو جاتی ہے تو اس میں باپ کو تو علم نہیں تھا کہ یہ بیٹی ہے، نیز بیوی کو کیسے معلوم ہو گا کہ اس کو طلاق ہو چکی ہے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ جس گھرانے میں یہ واقعہ پیش آیا، ان کی اولاد بھی ہے اور جدائی بہت مشکل ہے، اگر حرمت ثابت ہو چکی ہے تو ساتھ رہنے کا متبادل راستہ ممکن ہو تواس کی  بھی ضرور رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   بطورِ تمہید جانا چاہیے کہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

  1. جس عورت کو چُھوا ہو وہ مشتہاۃ ہو ،یعنی جس کی طرف شہوت پیدا ہوتی ہواور مفتی بہ قول کے مطابق  نو (9)  سال کی لڑکی مشتہاة  ہے۔
  2. چھونے سے شہوت آگئی ہو یا اگر پہلے سے شہوت کی حالت میں ہو تو اس میں مزید شدت آگئی ہو۔
  3. کسی کپڑے وغیرہ کے بغیر  چُھوا ہو یا کوئی ایسا کپڑا درمیان میں حائل ایسا ہو کہ  اس سے جسم کی حرارت محسوس ہوئی ہو۔
  4. شہوت اسی عورت پر ہو  جس کو چُھو اہے، کسی دوسری عورت پر نہ ہوئی ہو۔
  5. شہوت کی وجہ سے اس عورت کے بارے میں  غلط خیال (شہوتِ جماع ) دل میں پیدا ہوا ہو۔

 

  1. اس وقت انزال بھی نہ ہوا ہو، اگر اسی وقت انزال ہو گیا تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔

(مأخذہ امداد الأحکام: ج2 ص 797 تا 809)

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر باپ نے  مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اپنی بیٹی  کو  غلطی سے یا عمداً  چُھوا تو فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے نزدیک  میاں بیوی کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے اور فریقین کے درمیان ہمیشہ کے لیے نکاح ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد رجوع یا دوبارہ نکاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

 جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ باپ کو اس کے بیٹی ہونے کا علم نہیں تھا تو یہ عذر معتبر نہیں، کیونکہ اس پر لازم تھا کہ جب سب بچے ایک ہی کمرے میں موجود ہیں تو اس نازک مسئلہ میں احتیاط سے کام لیتا، اگر بے احتیاطی کی وجہ سے اس سے یہ فعل سرزد ہو گیا تو اب اس کا  وبال اسی پر ہو گا۔ باقی اگر اس نے اپنی بیوی کو اس کی خبر نہ دی تو وہ عند اللہ معذور سمجھی جائے گی اور اس کے بعد اکٹھے رہنے  کا گناہ بھی شوہر کو ہو گا، اس لیے شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی صورت میں اپنی بیوی کو اس کی اطلاع کرے، تاکہ دونوں علیحدگی اختیار کرکے حرام زندگی گزارنے سے بچ سکیں، نیز علیحدگی اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک کہہ یہ دے "میں نے تجھے چھوڑ دیا"، اس کے بعد عورت کی عدت شروع ہو جائے گی اور وہ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

نوٹ: حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کی صورت میں اگر علیحدگی میں  ناقابلِ برداشت مشکلات کا سامنا ہو تو شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے کسی مفتی صاحب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي (2/ 107) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند اللمس أو النظر لم يثبت به حرمة المصاهرة؛ لأنه ليس بمفض إلى الوطء لانقضاء الشهوة، وكذا لو وطئ دبر المرأة لا تثبت به الحرمة۔
ومنحة الخالق تحت البحر الرائق وتكملة الطوري (5/ 42) دار الكتاب الإسلامي:
(قوله: والثابت حرمتها بالمصاهرة) ليس على إطلاقه لما مر آنفا أنه يشترط في الحرمة المؤبدة عنده أن تكون ثابتة بالإجماع أو بالحديث المشهور قال في الفتح وأبو حنيفة إنما يعتبر الخلاف عند عدم النص على الحرمة بأن تثبت بقياس أو احتياط كثبوتها بالنظر إلى الفرج والمس بشهوة؛ لأن ثبوتها لإقامة المسبب مقام السبب احتياطا فهي حرمة ضعيفة لا ينتفي بها الإحصان الثابت بيقين بخلاف الحرمة الثابتة بزنا الأب، فإنها ثابتة بظاهر قوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] فلا يعتبر الخلاف مع وجود النص۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 330) دار إحياء الكتب العربية، بيروت:

 

                                                   y
 
(قوله: وممسوسته) شامل جميع البدن وفي الشعر اختلاف وفي الخلاصة ما على الرأس كالبدن بخلاف المسترسل ۔۔۔۔۔۔ (قوله: إلى فرجها الداخل) هو المفتى به، وقيل إلى الشق أو منابت الشعر وحد الشهوة مختلف فيه صحح في المحيط والتحفة وغاية البيان أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد اشتهاء ولا يشترط تحرك الآلة وصحح في الهداية أنه لا بد من الانتشار أو ازدياده إن كان منتشرا والمذهب ما في الهداية ومحل ثبوت الحرمة ما لم يتصل الإنزال بالمس فإن أنزل به لا تثبت الحرمة في الصحيح وعليه الفتوى، كذا في البحر والكافي وفي الشيخ والعنين علامة الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك، وإن كان فيزداد التحرك والاشتهاء قال عامة العلماء الشهوة أن يميل قلبه إليها ويشتهي أن يواقعها، كذا في قاضي خان.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

27/ربيع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب