70626 | نکاح کا بیان | نکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ نکاح خواں نے دلہن کے وکیل سے کہا : فلانہ بنت فلاں کو میں نے نکاح میں دیا،یعنی دلہا کا نام نہیں لیا اور نہ ہی اس کی طرف اشارہ کیا ۔پھر دلہا سے کہا :آپ نے قبول کیا ؟ تو اس نے قبول کرلیا۔اب پوچھنا یہ ہے کہ اس عقد میں ایجاب درست ہے یا نہیں؟اور یہ نکاح منعقد ہوا ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عقد نکاح کے موقع پرعموما گواہوں اورفریقین کےموجود رشتہ داروں کوپہلے سےیہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کس شخص کا نکاح کس عورت کے ساتھ کیا جارہا ہےاور عاقدین متعین ہوتے ہیں، لہذا ایجاب وقبول کرتے وقت کوئی لفظ چھوٹ جائے تو اس سے عقد کےصحیح ہونے پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔لہذا مذکورہ بالا نکاح درست ہےاور نکاح منعقد ہوگیا ہے۔
حوالہ جات
قال ابن الہمام رحمہ اللہ : وعرف من تعريف الإيجاب والقبول بأنهما اللفظان الصالحان لإفادة ذلك العقد عدم الاختصاص بالعربية.وعدم لزوم ذكر المفعولين أو أحدهما بعد دلالة المقام والمقدمات على الغرض؛ لأن الحذف لدليل جائز في كل لسان.(فتح القدیر:3/190)
قال الإمام العلامة ابن نجیم رحمہ اللہ : أطلق في اللفظين فشمل اللفظين حكما، وهو اللفظ الصادر من متولي الطرفين شرعا، وشمل ما ليس بعربي من الألفاظ، وما لم يذكر معهما المفعولان أو أحدهما بعد دلالة المقام والمقدمات؛ لأن الحذف لدليل كائن في كل لسان. (البحر الرائق:3/87)
سعد خان
دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی
2/ربیع الثانی/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعد خان بن ناصر خان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |