021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روزے کی حالت میں ڈرپ لگوانے کا حکم
70623روزے کا بیانروزے کے مفسدات اور مکروھات کا بیان

سوال

مفتیان کرام سے سے گزارش ہے کہ مسئلہ مذکورہ  کے متعلق  تفصیلی جواب  قرآن و حدیث کی روشنی میں ارشاد فرماکر عند اللہ ماجور ہو ں ،تفصیل السوال  یہ ہے  کہ بسا اوقات  روزے کی حالت  میں مریض کو ڈرپس لگانا پڑتی ہیں یہ بات  بھی قابل ذکر ہے  کہ ان صورتوں میں مریض  اکثر اوقات  روزہ چھوڑنے اور بعد  میں اس کی قضا کرنے  سے انکاری ہوتا ہے ہے مزید برآں یہ کہ  مذکورہ صورت حال میں ڈرپس کے متبادل کھانے والی ادویات نہیں دی جاسکتیں۔

ڈرپس کی تفصیل یہ ہےکہ

  1. کچھ ڈرپس ایسی  ہیں جن میں اصل مقصود دوائی  کو جسم  میں پہنچانا ہوتا  ہے  تا کہ بیماری کا علاج کیا جا سکے  اس صورت میں  دوائی کے ساتھ  ساتھ کچھ پانی بھی  جسم میں چلا جاتا ہے ہے جو کہ روزہ دار کے جسم میں  پانی کی کمی دور کرنے کے سلسلے میں معمولی حد تک معاون ہو سکتا ہے۔
  2. کچھ ڈرپس ایسی ہیں جن سے مقصد جسم کے نمکیات کو کو پورا کرنا ہوتا ہے مثلا Normal solve یہ ڈرپس نمکیات کی کمی کو پورا کرتی  ہیں اور پانی کی کمی کو بھی پورا کرتی ہیں جو کہ روزے کی حالت میں پیدا ہو جاتی ہے۔

(3)کچھ ڈرپس ایسیہیں جو کہ بیماری کی شدت میںیا دوسرے الفاظ میںمستقل معذورییا اس طرح کہا جا سکتا ہے ہے کہ جان بچانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں یہ بات قابل ذکرہے کہ اس قسم کا مریضروزہ رکھنے کی حالت میں نہیں ہوتالیکن اگر یہ لوگبھی روزہ رکھیںتو ان کا معاملہ بھیحل فرمادیںاس صورتمیں جسم میں داخل ہونے والاپانی تھوڑییا زیادہ مقدار میں ہو سکتا ہے

 خلاصہ یہکہ مذکورہ صورتوںمیں شرعی حکم کا ذکر فرمائیں مزیداس سے ملتے جلتے احکاماتاورصورتیں جو آجکل کے طریقہ علاج میں قابل سوال ہوتی ہیں تو ان کا ذکر بھی  فرمادیں تاکہ  بات مکمل واضح ہو جائے  جزاکم اللہ احسن الجزاء

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

روزے کی حالت میں ڈرپ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ بلا ضرورت روزے کا احساس نہ ہونے کے لیے طاقت حاصل کرنے کی غرض سے ڈرپ لگانا مکروہ ہے ،انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔خواہ رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں ،اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛ کیونکہ انجکشن یا ڈرپ کے ذریعہ جو دوا بدن میں پہنچائی جاتی ہے وہ  منافذ اصلیہ سے نہیں بلکہ رگوں یا مسامات کے ذریعہ بدن میں جاتی ہے جبکہ روزہ فاسد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ منافذ اصلیہ مثلاًمنہ یا ناک وغیرہ کے ذریعہ کوئی چیز معدے یا دماغ کے اندر پہنچے اور انجکشن یاڈرپ میں ایسا نہیں ہوتا ۔

ڈرپس کی مذکورہ اقسام میں اگرچہ پانی کی کچھ نہ کچھ مقدار جسم میں پہنچتی ہے پھر بھی اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ پانی براہ راست جسم تک نہیں پہنچتا بلکہ مسامات کے ذریعے پہنچتا ہے، جیسا کہ غسل کے دوران ہوتا ہے لہذا  اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

حوالہ جات
والمفطر إنما ھو الداخل من المنافذ؛ للاتفاق علی أن من اغتسل فی ماء ،فوجد بردہ فی باطنہ،أنہ لا یفطر۔(رد المحتار علی الدر المختار : 2 / 395)
 (قوله أو ادهن، أو احتجم ،أو اكتحل، أو قبل) أي لا يفطر؛ لأن الادهان غير مناف للصوم، ولعدم وجود المفطر صورة ،ومعنى ،والداخل من المسام لا من المسالك فلا ينافيه كما لو اغتسل بالماء البارد، ووجد برده في كبده۔( البحر الرائق شرح كنز الدقائق :476/2)
والمفطر ،الداخل من المنافذ کالمدخل و المخرج لامن المسام،الذی ھو خلل البدن ؛ للاتفاق فی من شرع فی الماء ،یجد بردہ فی باطنہ،و لا یفطر وإنما كره أبو حنيفة الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول ؛لما فيه من إظهار الضجر في إقامة العبادة لالأنه قريب من الإفطار ۔(فتح القدير:257/2)
وفي " شرح مختصر الطحاوي " لا بأس بالكحل سواء وجد طعمه أو لم يوجد، وكذا في " المحيط " كما لو أخذ حنطة في فيه فوجد مرارته في حلقه، أو ماء فوجد عذوبته أو ندواته في حلقه، وكذا لو صب لبنا في عينه، أو دواء ،فوجد طعمه ،أو مرارته في حلقه لا يفسد صومه، ولو بزق بعد الاكتحال ،فوجد الكحل من حيث اللون، قيل يفسده ذكره في " جوامع الفقه " (لأنه ليس بين العين والدماغ منفذ) فما وجد في حلقه من طعمه إنما [هو] أثره لا عينه. وقال الأترازي :"وليس بين العين والجوف منفذ فلا يصل من الكحل من العين إلى الجوف، وإنما وصل إليه أثر الكحل وهو الطعم، فقد وصل إليه من المسام فلا يعتد به كما لو اغتسل بالماء البارد فوجد برودته في الباطن "
(قولہ كما لو اغتسل بالماء البارد)  ذكر هذا نظير المناسبة، فإنه لا ينافي الصوم مع أنه يجد برودة الماء في باطنه ۔(البنایۃ:4/41)
ويشترط في فساد الصوم أن يكون الداخل إلى الجوف، من المنافذ الواسعة - كما قيده بذلك المالكية  - والمفتوحة - كما قال الشافعية- أي: المخارق الطبيعية الأصلية في الجسم،والتي تعتبر موصلة للمادة من الخارج إلى الداخل، كالفم والأنف والأذن لذلك، . وقد استدل بالاتفاق على أن من اغتسل في ماء، فوجد برده في باطنه لا يفطر، ومن طلى بطنه بدهن لا يضر، لأن وصوله إلى الجوف بتشرب۔
(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: 28/29)
 
.

 

نصیب اللہ    

                                                                                                                       دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی  

29 ربیع الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نصیب اللہ بن محمد اکبر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب