021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت سے لیے گئے خلع کا شرعی حکم
70629طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

سوال:کیا فرماتے علمائے کرام  اس  مسئلے کے بارے  میں کہ میرے بھائی  کا رشتہ ایک ایسی لڑکی سے ہوا ہے  جس نے اپنے سابقہ خاوند سے  عدالت کے ذریعے خلع لیا تھا،لیکن سابقہ  شوہر نے نہ زبانی طلاق دی اور نہ ہی تحریری طور پر۔اب پوچھنا یہ ہے  کہ شرعی طور پر مذکورہ لڑکی کا نکاح سابقہ شوہر سے ختم ہوا ہے یا نہیں؟

خلع کی وجہ :شوہر کے تعلقات خاتون کے ساتھ ابتداء ہی سے اچھے نہیں تھے، انہوں نے کبھی بھی  بیوی بچوں کی ذمہ داری کو سمجھا ہی نہیں نہ وہ بیوی سے بات کرتے اور نہ ہی  کبھی کسی خوشی یا غمی کا اظہار کرتے ۔سابقہ شوہر کے گھر والوں نے ہر ممکن نفسیاتی اور روحانی علاج کروایا لیکن ان کے مزاج اور رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ ان سب ممکن کوششوں کے بعد خاتون نے خلع کا فیصلہ کیا اور  عدالت کے ذریعے خلع لے لیا اور شوہر کو اپنے دستخط کے ساتھ تحریری طور پر آگاہ کردیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع مالی معاملات کی طرح میاں بیوی کے درمیان ایک معاملہ ہے جس کے درست ہونے کے لیے  فریقین کا راضی ہونا  ضروری  ہے ۔ مذکورہ  صورت  میں  عدالت  کا  شوہر  کوبار بار بلانےپر نہ  آنے اورتحریری  موقف طلب کرنےکےباوجود بھی کوئی جواب نہ دینے پرعورت کے حق میں یک طرفہ خلع کا  فیصلہ دے دینا شرعاً درست نہیں۔لہذا یہ لڑکی بدستور پہلے شوہرہی کے نکاح میں ہےاور دوسری جگہ نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں۔لیکن اگرلڑکی پہلے شوہر کے ساتھ رہنے پر بلکل راضی نہیں تو وہ شوہر کو مال  کی پیشکش کرکے طلاق یا خلع پر راضی کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
قال العلامة الکاساني رحمه اللہ : وأما في جانبها فإنه معاوضة المال؛ لأنه تمليك المال بعوض، وهذا معنى معاوضة المال، فتراعى فيه أحكام معاوضة المال، كالبيع ونحوه.(بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: 3/145)
قال شمس الأئمة السرخسي رحمہ اللہ : (قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض).المبسوط:6/173)
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله: ( وفي جانبها معاوضة. )عطف على قوله يمين في جانبه، أي لأن المرأة لا تملك الطلاق ،بل هو ملكه، وقد علقه بالشرط، والطلاق يحتمله، ولا يحتمل الرجوع ولا شرط الخيار، بل يبطل الشرط دونه ولا يتقيد بالمجلس،  وأما في جانبها فإنه معاوضة المال؛ لأنه تمليك المال بعوض ،فيراعى فيه أحكام معاوضة المال، كالبيع ونحوه، كما في البدائع.(رد المحتار علی در المختار:3/442)

     سعد خان                                   

 دار الافتاءجامعۃالرشیدکراچی

 3/ربیع الثانی/ 1442ھ                    

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب