03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کانفرنس کال کے ذریعے نکاح کا حکم
70662نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

میرا مفتیان عظام سے سوال ہے کہ لڑکا اور لٕڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے،اور ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے ،دونوں نے رضامندی سے آنلائن نکاح کی محفل واٹس ایپ کا نفرنس کال کے ذریعے رکھوائی۔(چونکہ لڑکا سرگودھا سے تعلق رکھتا ہےاور لڑکی کراچی سے)اس کانفرنس کال پہ قاضی ،دوگواہ،لڑکے کا وکیل ،لڑکا اور لڑکی موجود تھے،کانفرنس کال پر لڑکی کراچی سے موجود تھی اور لڑکا سرگودھا سے،جبکہ قاضی صاحب ،دوگواہ اور لٕڑکے کا وکیل ایک ہی مجلس میں ملتان سے کانفرنس کال میں موجود تھے،کال کے دوران لڑکی نے دولہے کا نام لے کر کہا کہ میں نے دولہے کو اپنے ساتھ نکاح کا اختیار دیا ہے،یہ بات قاضی صاحب مع گواہان ،وکیل اور دولہا سب نے سنی،پھر قاضی کے پاس جو لڑکا تھا وہ دولہے کا وکیل بنا اور پھر قاضی صاحب نے ایجاب وقبول بعوض پانچ ہزار مہر کے کروایا،لڑکے نے اس کو قبول کیا ،اور لڑکی بھی کال پر موجود تھی،اس کے بعد قاضی نے خطبہ پڑھا،دعا بھی کی اور گواہان کے نام بھی لیے،اور نکاح فارم وغیرہ نہیں بنائے،اب براہ کرم مفتیان کرام راہنمائی کریں کہ آیا یہ نکاح واقع ہوا ہے یا نہیں؟اور نکاح فارم بنوانا شرعا ضروری ہے یا نہیں؟دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ آیا اس حالیہ نکاح پر کسی دوسرے کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کی بہتر اور پسندیدہ صورت یہ ہے کہ نکاح اعلانیہ ہو،متعاقدین یا ان کے وکیل گواہوں کے ساتھ مجلس میں موجود ہوں۔اگر کسی مجبوری کی بناء پر فون پر ہی نکاح کرنا ہو تو مجلس میں موجود کسی ایسے شخص کو وکیل بنادیا جائے جو ان کو جانتا ہو۔

سوال میں جو صورتحال مذکور ہے اس میں اکثر اہل افتاء کے نزدیک مجلس ایک نہ ہونے کی وجہ سے نکاح منعقدنہیں ہوتا،لہذا مذکورہ صورت میں ضرورت ہے کہ دوبارہ معروف طریقے سے نکاح کیا جائے اور اس کے بعد ازدواجی زندگی جاری رکھی جائے ، اگر لڑکی کا، دوسری جگہ نکاح کرانا مدنظر ہوتو ضرورت ہے کہ لڑکا اس کو طلاق دے،اس کے بعد ہی دوسری جگہ نکاح کا اقدام  کیا جائے۔

حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 14)

ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين،

 (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعا تيسيرا؛ وأما الفور فليس من شرطه؛ ولو عقدا وهما يمشيان أو يسيران على الدابة لا يجوز، وإن كان على سفينة سائرة جاز. اهـ. أي؛ لأن السفينة في حكم مكان واحد.

 (قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

05/ربیع الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب