021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کتابیہ عورت سے نکاح کا حکم
70648نکاح کا بیانمشرکین اور کفار کے نکاح کا بیان

سوال

 ایک بندہ کہتا ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے اور آج کل بھی یہ نکاح جائز ہے، کیونکہ جس وقت آیت کا نزول ہوا اُس کے بعد "والمحصنت من النساء" کے استثناء سے پھر جواز کا حکم آگیا۔ اس لیے کہ اُس وقت بھی تو اہل کتاب مشرک ہی تھے، جیسا کہ "نحن ابناء اللہ" اور "ان اللہ ثالث ثلاثۃ" والی نصوص سے ظاہر ہے۔ تو کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟

            بینوا توجروا بالتفصیل مع الأدلۃ۔ والسلام.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن کریم میں اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت کا حکم منسوخ نہیں ہے، بلکہ آج بھی باقی ہے اور تا قیامت باقی رہے گا۔ لہذا اگر کوئی اور خرابی نہ ہو تو فی نفسہ مسلمان مرد کا اہل کتاب کی خواتین کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنے آپ کو عیسائیت یا یہودیت کی طرف منسوب کرتی ہواور اُُن کے مذہب میں موجود شرکیہ عقیدے بھی رکھتی ہو، تب بھی اُس کے ساتھ نکاح حرام نہ ہوگا۔ البتہ چونکہ اِن کے ساتھ نکاح کرنے میں دینی اعتبار سے نقصان کا اندیشہ ہے، لہذا حتی الامکان اِس سے احتراز کرنا چاہیے ۔خاص طور پر مغربی ممالک میں جہاں ملکی قوانین کی وجہ سے آپ کے بچے بھی آپ کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔

حوالہ جات
قال الإمام الجصاص رحمہ اللہ تعالی: وإن کان قولہ تعالی]ولا تنکحوا المشرکات[ إنما یتناول إطلاقہ عبدۃ الأوثان علی ما بیناہ فی غیر ھذا الموضع، فقولہ تعالی ]والمحصنات من الذین أوتوا الکتاب من قبلکم[ ثابت الحکم ؛ إذ لیس فی القرآن ما یوجب نسخہ.(أحکام القرآن: 3/325)
                                                    قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (مقرۃ بکتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسیح إلھا، وکذا حل ذبیحتھم علی المذھب. بحر.(الدر المختار مع رد المحتار: 4/134)
 
 
                                                    قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: وھل یشترط في الیھودي أن یکون إسرائیلیا، و في النصراني أن لا یعتقد أن المسیح إلہ؟ مقتضی إطلاق الھدایۃ و غیرھا عدمہ، بہ أفتی الجد في الإسرائیلي، وشرط في المستصفی لحل مناکحتھم عدم اعتقاد النصراني ذلك. وفي المبسوط: ویجب أن لا یأکلوا ذبائح أھل الکتاب إن اعتقدوا أن المسیح إلہ و أن عزیرا إلہ، ولا یتزوجوا بنسائھم، لکن في مبسوط شمس الأئمۃ: وتحل ذبیحۃ النصاری مطلقا سواء قال ثالث ثلاثۃ أو لا، ومقتضی الدلائل الجواز کما ذکرہ التمرتاشی في فتاواہ.
(رد المحتار: 9/430)
                                                    قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی: إن الکتابیات وإن دخلن تحت عموم اسم المشرکات بحکم ظاھر اللفظ، لکنھن خصصن عن العموم بقولہ تعالی: ]والمحصنات من الذین أوتوا الکتاب من قبلکم.[(بدائع الصنائع: 3/463)
                                                    قال الإمام الجصاص رحمہ اللہ تعالی: تزوج حذیفة بیھودیة، فکتب إلیہ عمر أن خل سبیلھا، فکتب إلیہ حذیفة أحرام ھي؟ فکتب إلیہ عمر لا ولکني أخاف أن تواقعوا المومسات منھن.(أحکام القرآن: 3/323)

صفی ارشد

دارالإفتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

1 ربیع الثانی 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب