021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نامناسب نام کو تبدیل کرنا
70676جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

میرے ایک دوست کا نام مُقصَّر حسین ہے۔ اسے کسی نے بتایا کہ اس کانام غیر مناسب ہے، لہٰذا اسے تبدیل کرنا چاہیے۔ اس کے تمام تعلیمی سرٹیفیکیٹس، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اسی نام سے ہیں۔ ویسے اس نے اپنے دوستوں اور گھر والوں میں اپنا نام مبشر حسین رکھا ہوا ہے اور اسی نام سے اسے پکارا جاتا ہے۔

1ـ کیا اس نام میں اتنی قباحت ہے کہ اسے تمام ڈاکومنٹس میں تبدیل کرنا ضروری ہے؟

2ـ اس کے علاوہ ناموں کے مطالب کے حوالے سے تفصیلی معلومات درکار ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1ـ مُقصِّر کا مطلب ہے کمی کرنے والا اور مُقَصَّر کا مطلب ہے کمی کیا گیا۔ لہٰذا اس نام میں اتنی قباحت نہیں کہ اسے تمام دستاویزات میں تبدیل کرنا ضروری ہو، لیکن یہ نام مناسب بھی نہیں۔ اگر دستاویزات میں تبدیلی ہو سکتی ہو تو بدل دیا جائے، البتہ گھر اور دوستوں میں بہرحال اپنا نام مبشر ہی رکھیں۔

2ـ بچے کا نام رکھتے وقت کسی اچھے نام کا انتخاب کرنا چاہیے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور صالحین کے ناموں کو ترجیح دینی چاہیے یا کوئی اچھے مطلب والا نام رکھنا چاہیے۔ نام کا شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر کسی کا نام ایسا رکھ دیا گیا ہو جو اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو تو اسے تبدیل کر دینا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ناموں کو تبدیل کر دیا کرتے تھے۔

حوالہ جات
(قصَّـر( ـ الشیءَ: صیّـرہ قصیـرًا. (المعجم الوسیط:  738)
روی الإمام أبی عیسی الترمذی رحمہ اللہ تعالٰی: عن عائشة رضی اللہ عنھا، أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم كان يغير الاسم القبيح. (سنن الترمذی: 431/4)
وقال ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی: إن الأمر بتحسين الأسماء، وبتغيير الاسم إلى أحسن منه ليس على الوجوب. )فتح الباری: 574/10)
وقال جماعۃ من الفقہاء رحمھم اللہ: يجوز تغيير الاسم عموما، ويسن تحسينه، ويسن تغيير الاسم القبيح إلى الحسن….. والفقهاء لا يختلفون في جواز تغيير الاسم إلى اسم آخر، وفي أن تغيير الاسم القبيح إلى الحسن هو من الأمور المطلوبة التي حث عليها الشرع(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: 336/11)
وقال الملا علی قاری رحمہ اللہ تعالٰی: وقال الطيبي: كان من الظاهر أن يسمي بما يقابل اسمها]أی عاصیۃ[، والمقابل برة وهو أيضا غير جائز للعلتين السابقتين، ولذلك عدل إلى جميلة، وهي مقابلة لها من حيث المعنى؛ لأن الجميل لا يصدر منه إلا الجميل والبر.
قلت: لا يلزم من التحويل المقابلة ألبتة، فلا يحتاج إلى مراعاتها، مع أن المقابل للعاصية إنما هو المطيعة على ما قدمناه، فالظاهر أن الجميلة هنا بمعنى الحسنة، لا بمعنى الآتية بالجمال، فإنها ترجع إلى معنى التزكية، والله أعلم، قال النووي: وفيه استحباب تغيير الاسم القبيح، كما يستحب تغيير الأسامي المكروهة إلى حسن. (مرقاۃ المفاتیح: 3000/7)

محمد عبداللہ

7/ ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب