021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر جنازے کے دفن کرنے کا حکم
70677جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

تین مہینے پہلے کچھ بچے دریا میں بہہ گئے تھے۔ چند دن پہلے ان میں سے ایک بچے کی لاش ملی۔ تجربہ کار لوگوں نے لاش کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ لاش دو مہینے پانی میں رہی اور ایک مہینہ خشکی میں۔ لاش کی صورتِ حال یہ تھی کہ ڈھانچہ بالکل صحیح تھا اور گوشت کہیں کہیں سے خراب ہوا تھا۔ شکل وصورت پہچانی جا رہی تھی۔ کچھ علماء کے کہنے پر بچے کو بغیر جنازے کے دفن کر دیا گیا۔ بعد میں بعض دوسرے علماء نے اس پر اعتراض کیا کہ ایسا کرنا درست نہیں۔

1ـ کیا ان علماء کی بات درست ہے؟

2ـ کیا اب اس کی قبر پر جنازہ پڑھا جائے گا؟

3ـ مزید یہ بھی بتلائیے کہ اگر میت کو بغیر جنازے کے دفن کیا کر دیا جائے تو کیا صرف محلے والے ہی گناہ گار ہوں گے یا میت پر بھی اس کا کچھ اثر پڑے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1ـ نمازجنازہ پڑھنا ہر مسلمان میت کا حق اور اہلِ علاقہ کے ذمے فرضِ کفایہ ہے۔ اگر میت کے جسم کا اکثر حصہ بھی مل جائے تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا اُن علماء کی بات درست ہے جن کا کہنا ہے کہ بغیر نمازِ جنازہ کے اسے دفن نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اہل علاقہ کو چاہیے تھا کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھ کر دفن کرتے۔

2ـ لیکن اگر کسی میت کو بغیر جنازے کے دفن کردیا گیا  ہو تو اندازہ لگایا جائے گا کہ آیا قبر میں لاش پرانی ہو کر پھٹ تو نہیں گئی؟ اگر غالب گمان یہ ہو کہ لاش پھٹی نہیں  ہوگی تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اگر اس قدر پرانی ہوجانے کا گمان غالب ہوتو نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ ایسی صورت میں اہلِ علاقہ کو چاہیے کہ خوب توبہ و استغفار کریں، کیونکہ مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھنا فرضِ کفایہ ہے۔  اگر کسی نے بھی نہ پڑھی تو سارے اہلِ علاقہ گناہ گار ہوں گے۔

3ـ میت پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگا، کیونکہ مرنے کے بعد انسان کسی حکمِ شرعی کا مکلف نہیں رہتا اور نمازِ جنازہ اہلِ علاقہ کے ذمہ فرض ہے، نہ کہ میت کے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ شمس الأئمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالٰی: والصلاة على الجنازة فرض على الكفاية، تسقط بأداء الواحد، إذا كان هو الولي، وليس للقوم أن يعيدوا بعد ذلك.(المبسوط للسرخسی: 126/2)
وقال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالٰی: ولو وجد أكثر البدن، أو نصفه مع الرأس يغسل، ويكفن، ويصلى عليه. (الفتاوٰی الھندیۃ: 159/1)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل، أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحسانًا (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: ( هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حرًا وبردًا، والميت سمنًا وهزالًا، والأمكنة، بحر. وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر.
(رد المحتار: 224/2)
وقال العلامۃ علی بن أبی بکر الفرغانی رحمہ اللہ تعالٰی: (وإن دفن الميت، ولم يصل عليه، صلى على قبره) لأن النبي عليه الصلاة والسلام صلى على قبر امرأة من الأنصار (ويصلى عليه قبل أن يفسخ) والمعتبر في معرفة ذلك أكبر الرأي، هو الصحيح؛ لاختلاف الحال والزمان والمكان. (الھدایۃ: 90/1)

محمد عبداللہ

7/ ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب