021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کا ایک مسئلہ{تم اپنے ابو کے گھر چلی جاو، میری طرف سے آپ کو اجازت ہے جہاں بھی آپ شادی کرنا چاہتی ہو کرلو، آپ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔میری طرف سے اجازت ہے۔}
70732طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے  دوسری شادی کی،لیکن شروع دن ہی سے شوہر کو پسند نہ آئی ۔اس نے سوچا کہ زندگی بھر اس طرح ساتھ نہیں رہ سکتے۔چنانچہ شوہر   نے ان سے مختلف اوقات میں درج ذیل جملے کہے:

1.تم اپنے ابو کے گھر چلی جاو۔میری طرف سے آپ کو اجازت ہے جہاں بھی آپ شادی کرنا چاہتی ہو کرلو،کیونکہ ہم ایک ساتھ زندگی نہیں گزارسکتے۔

2.تم اپنے گھر والوں سے مشورہ کرلو کہ مجھے یہ شوہر پسند نہیں ہے،اس لیے مجھے طلاق چاہیے۔

اس طرح مختلف اوقات میں ان سے گھر جانے کا کہا لیکن اس نے بات نہیں مانی اور نہ ہی اس نے طلاق کا مطالبہ کیا ،بلکہ وہ اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔آخر کار ایک دن بیوی  گھر چلی گئی اور تین سال سے وہ گھر میں ہے۔اس دوران بھی شوہر نے کئی بار ان کو پیغام بھیجا کہ آپ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔میری طرف سے اجازت ہے۔

یاد رہے اس دوران شوہر نے جو جملے کہے اس سے ان کی  نیت طلاق کی نہیں تھی،بلکہ مقصد یہ تھا کہ وہ خود گھر چلی جائے اور اپنے گھر والوں سے مشورہ کرکےشوہر سے طلاق کا مطالبہ کرلے  اس کے بعد شوہر بیوی کے مطا لبہ پر طلاق دیدے۔اب دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

گھر چلی جاو ، یا دوسری جگہ شادی کرلو ، کے الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لیے بہر حال نیت شرط ہے ،لہذا اگر مذکورہ تفصیل درست ہے کہ شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،بلکہ بیوی بدستور اسی شوہر کے نکاح میں  ہے۔شوہر پر لازم ہے کہ یا تو وہ بیوی کو گھر لاکر ان کے حقوق ادا کرے اور یا ان کو طلاق دیکر فارغ کردے ،کیونکہ اس طرح بیوی کو معلق رکھنا کہ نہ ان کے حقوق ادا کرے اور نہ طلاق دے, شرعا ناجائز اور ظلم ہے۔قرآن  وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔

حوالہ جات
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 19]
قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لا يفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر . رواه مسلم.(مشکاۃ المصابیح، 2/280،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ : ( وأما الضرب الثاني وهو الكنايات لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة الحال ) لأنها غير موضوعة للطلاق بل تحتمله وغيره فلا بد من التعيين أو دلالته .
(العناية شرح الهداية : 5 / ص 272)

واللہ سبحانہ و تعالی أعلم

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۳/ربیع الثانی    ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب