021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی شوہرکی اجازت کےبغیروالدین کےگھرچلی جائےتواس کےنفقہ کاحکم
70724نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

محترم جناب مفتی صاحب دامت برکاتہم!میں ایک مسئلےکاحل شریعت کےاصول کےمطابق معلوم کرناچاہتی ہوں۔

ایک لڑکی شوہراورباقی گھروالوں کی غیرموجودگی میں اپنےگھروالوں کوکال کرکےبلاکران کےساتھ چلی گئی اوراپنےساتھ تمام زیورات،تمام نقدروپیہ،اپنےتمام کڑےاورضرورت کاسامان اپنی دوسال کی بچی اوراس کاتمام ضرورت کاسامان وغیرہ لےکرچلی گئی،شوہرکواس نےایک دوکالز کی جووہ آفس میں مصروفیت کی وجہ سےاٹھانہ سکا،پھرایک میسج کردیاکہ میں امی کےگھرجارہی ہوں۔

شوہرنےجب میسج دیکھاتووہ کالزکرتارہا،لیکن اس لڑکی نےکالزاٹینڈنہیں کی اوراپنےوالدین ایک خالہ اورایک ماموں کےساتھ چلی گئی۔

شوہرآفس سےفوراگھرآیااوراپنے گھروالوں سےرابطہ کیاتوان سب کوبھی کچھ معلوم نہیں تھا۔پھروہ اپنےتینوں بھائیوں کےساتھ لڑکی کےوالدین کےگھرگیا،وہاں لڑکی کےخالو،ماموں اورکئی لوگ موجودتھے،ان سےبات کرنےکی کوشش کی توان لوگوں نےکافی غیرمہذب زبان استعمال کی اورلڑکےکےبھائیوں کوگھرمیں گھسنےنہیں دیا۔

آخرکارلڑکےنےاپنی بیوی سےبات کرنےکی کوشش کی تواس کےخالونےمنع کردیاپھراس نےلڑکی سےپوچھاکہ تم میرےساتھ چلوگی میں تمہیں لینےآیاہوں،تواس لڑکی نےاس کےساتھ چلنےسےصاف انکارکردیاپھرلڑکااپنےبھائیوں کےساتھ واپس آگیا۔اس کےبعدپانچ ماہ کاعرصہ ہوگیا،اس دوران لڑکےگھروالوں کی طرف سےبات چیت کی بہت کوشش کی گئی،لیکن اس لڑکی نےگااس گھرمیں آنےسےصاف انکارکردیا۔اورصرف نان نفقہ اورخرچےکامطالبہ ہے۔اس کےلیےانہوں نےکورٹ میں بھی کیس کردیاہے۔

برائےمہربانی یہ بتادیجیےکہ بیوی کاخرچہ اس کےذمہ ہےیانہیں ؟طلاق کی صورت میں اس کےذمہ کوئی رقم واجب الاداء ہے؟یہ بات آپ کوبتادوں کہ جوزیورات وہ ساتھ لےگئی ہےاس میں مہرکی مدمیں دیاگیاسونےکاسیٹ بھی شامل ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگربیوی شوہرکی اجازت کےبغیروالدین کےگھربغیرکسی شرعی وجہ کےچلی جائےتوایسی عورت شرعاناشزہ(نافرمان) کہلاتی ہےاورناشزہ عورت نفقہ کی مستحق نہیں رہتی،لہذاجب تک بیوی  گھرواپس نہ آجائےاس کانفقہ شوہرپرلازم نہیں لہذاصورت مسئولہ میں اگرنشوزاورنافرمانی واقعتابیوی کی طرف سےہےتوبیوی نفقہ کی مستحق نہیں ہوگی ،اس لیےبیوی یابیوی کےوالدین شوہرسےنفقہ کامطالبہ نہیں کرسکتے۔

اگرشوہرخودطلاق دےتوایسی صورت میں جبکہ بیوی اپنامہرپہلےہی وصول کرچکی ہےشوہرپرمہرکی مدمیں کچھ واجب نہیں ۔البتہ شوہرپربچی کےنفقہ کے ساتھ ساتھ عورت کے عدت کےدنوں کانفقہ بھی لازم ہوگا۔

اوراگرخلع یاطلاق علی مال کی صورت ہوتوبھی ایام عدت کانفقہ شوہرپرلازم ہوتاہے،ہاں اگرخلع کےوقت اس  کی تصریح کردی  گئی کہ شوہرنفقہ نہیں دےگاتوپھرشوہرپرلازم نہ ہوگا۔

مہرکےزیورات جووہ ساتھ لےکرگئی ہےیہ بیوی ہی کی ملکیت ہیں۔شوہرکی طرف سےان زیورات کامطالبہ نہیں کیاجاسکتا،البتہ اگرخلع میں مہرکی واپسی کی شرط لگادی گئی توبیوی پران زیورات کوواپس کرنالازم ہوگا۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" 11 / 347:
وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه۔
"الفتاوى الهندية "11 / 419:
بخلاف ما لو نشزت فطلقها ، ثم تركت النشوز فلها النفقة كذا في محيط السرخسي والأصل في هذه أن كل امرأة لم تبطل نفقتها بالفرقة ، ثم بطلت في العدة بعارض منها ، ثم زال العارض في العدة تعود نفقتها ، وكل من بطلت بالفرقة لا تعود النفقة إليها في العدة ، وإن زال سبب الفرقة كذا في البدائع ۔
"رد المحتار" 13 / 185186 ,:
( و ) تجب ( لمطلقة الرجعي والبائن ، والفرقة بلا معصية كخيار عتق ، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة )۔مطلب في نفقة المطلقة :۔۔۔۔۔۔( قوله والفرقة بلا معصية ) أي من قبلها ، فلو كاتب بمعصيتهما فليس لها سوى السكنى كما يأتي ۔قال في البحر : فالحاصل أن الفرقة إما من قبله أو من قبلها ، فلو من قبله فلها النفقة مطلقا سواء كانت بمعصية أو لا طلاقا أو فسخا ، وإن كانت من قبلها فإن كانت بمعصية فلا نفقة لها ولها السكنى في جميع الصور۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

13/ربیع الثانی 1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب