021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد ایک بیٹے کو ہبہ کرنا
70750ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص زندگی میں اپنی جائیداد ایک بیٹے کے نام کرنا چاہتا ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا صرف کاغذات میں جائیداد ان کے  نام کردینے سے ملکیت ثابت ہوجائے گی؟اور کیا ایسا کرنا باپ کے لیے شرعا درست ہے؟جبکہ اس کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں باپ کے لیے شرعا یہ درست نہیں ہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد صرف ایک بیٹے کو ہبہ کرے اور دوسری اولاد کو محروم کرے۔ باپ اگر زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو ساری اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں میں ) میں  برابر تقسیم کرلے ۔یا اگر چاہے تو بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیدے۔

 نیزاس طرح  صرف کاغذات میں جائیداد  نام کردینے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی،جب تک کہ ہر بیٹے کو باقاعدہ قبضہ نہ کرایاجائے۔

حوالہ جات
وعن أنس قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع اللہ ميراثه من الجنة يوم القيامة . رواه ابن ماجه.
(مشكاة المصابيح: 2/ 926، کتاب الفرائض، باب الوصایا، الفصل الثالث )
قال العلامة ابن نجیم رحمہ اللہ : وإن وهب ماله كله  لواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي فتاوى.(البحر الرائق شرح كنز الدقائق:  20 / 110)
قال العلامة شیخی زادہ رحمہ اللہ: وتتم الهبة بالقبض الكامل ولو كان الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به لقوله عليه السلام لا تجوز الهبة إلا مقبوضة والمراد هنا نفي الملك لا الجواز لأن جوازها بدون القبض ثابت خلافا لمالك فإن عنده ليس القبض بشرط الهبة.(مجمع الأنهر:  3 /  491) 

واللہ سبحانہ و تعالی أعلم

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۲/ربیع الثانی    ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب