021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیویوں کے درمیان نفقہ میں برابری کا حکم
70663نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

زید نے دو شادیاں کی ہیں۔ اس کی مہینہ کی کل آمدن 25000 ہزار ہے۔ ایک فیملی کو مسجد کی طرف سے کرایہ کے مکان میں رکھا ہوا ہے اور دوسری فیملی کسی اور علاقے میں کرایہ کے مکان میں رہتی ہے۔ پہلی فیملی کو مسجد والے کرایہ کے لیے کل 21000 روپے دیتے ہیں، اور دوسری فیملی کا مکان کرایہ کل 7500 ہے جو زید اپنی آمدن سے دیتا ہے۔ اب زید پہلی فیملی کو مہینے کے صرف اخراجات کے لیے 10000 روپے دیتا ہے، جبکہ دوسری فیملی کو کرایہ اور اخراجات دونوں کے لیے 10000 دیتا ہے جس میں سے کرایہ نکالنے کے بعد اخراجات کے لیے صرف 2500 روپے بچتے ہیں۔  اب سوال یہ ہے کہ کیا زید کے لیے اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ شریعت کی روشنی میں مکمل وضاحت فرمائیں۔

   تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ یہ ہمارے گھر کا مسئلہ ہے۔ ہمارے والد صاحب ہماری والدہ کو کرایہ سمیت دس ہزار روپے دیتے ہیں، جبکہ دوسری اہلیہ کو کرایہ کے علاوہ صرف اخراجات کے لیے دس ہزار روپے دیتے ہیں۔ ہم تین بھائی بالغ ہیں، ایک بھائی نابالغ ہے۔ دو غیر شادی شدہ بہنیں گھر پر ہیں۔ والد صاحب زیادہ تر دوسرے گھر میں ہوتے ہیں، ہفتہ میں ایک آدھ دن ہمارے ہاں آتے ہیں۔ میری اپنی والدہ اور سوتیلی والدہ دونوں کے خاندان مالی حیثیت میں تقریبا برابر ہیں، بلکہ ہمارا ننھیال زیادہ مضبوط ہوگا۔ والد صاحب کے پیسوں سے والدہ کے پاس مکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعد صرف ڈھائی ہزار روپے بچتے ہیں، باقی اخراجات پھر میں اور دوسرا بھائی کرتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب آپ کی حقیقی والدہ اور سوتیلی والدہ کے خاندان مالی اعتبار سے برابر ہیں تو ان کے درمیان نفقہ میں بھی برابری ضروری ہے۔ لہٰذا آپ کے والد صاحب آپ کی والدہ کو بھی کرایہ کے علاوہ اتنا خرچہ دے جتنا وہ اپنی دوسری اہلیہ کو دیتے ہیں۔ اگر والد صاحب مالی اعتبار سے تنگی کا شکار ہو اور آپ ان کے ساتھ تعاون کریں تو آپ کو صلہ رحمی کے ساتھ ساتھ والدین کی خدمت کا ثواب بھی ملے گا۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:

{وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا } [النساء: 3]

المستدرك - الهندية (2/ 187):

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط."  هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.

الدر المختار (3/ 201):

 باب القسم:  بفتح القاف القسمة وبالكسر النصيب،  ( يجب ) وظاهر الآية أنه فرض،  نهر ( أن يعدل ) أي أن لا يجوز ( فيه ) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة ( وفي الملبوس والمأكول ) والصحبة ( لا في المجامعة ) كالمحبة بل يستحب.

رد المحتار (3/ 201):

قوله ( وظاهر الآية أنه فرض ) فإن قوله تعالى { فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة } أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور، فيحتمل أنه للوجوب فيعلم إيجاب العدل عند تعددهن كما قاله في الفتح، أو للندب ويعلم إيجاب العدل من حيث إنه إنما يخاف على ترك الواجب كما في البدائع، وعلى كل فقد دلت الآية على إيجابه، تأمل…….. (قوله و فی الملبوس و المأکول) أی و السکنی، و لو عبر بالنفقة لشمل الکل. ثم إن هذا معطوف علی قوله "فیه"، و ضمیره للقسم المراد به البیتوتة فقط بقرینة العطف، و قد علمت أن العدل فی کلامه بمعنی عدم الجور لا بمعنی التسویة؛ فإنها لا تلزم فی النفقة مطلقا. قال فی البحر: قال فی البدائع "یجب علیه التسویة بین الحرتین و الأمتین فی المأکول و المشروب والملبوس و السکنی و البیتوتة"، و هکذا ذکر الولوالجی.

و الحق أنه علی قول من اعتبر حال الرجل وحده فی النفقة. و أما علی القول المفتی به من اعتبار حالهما فلا؛ فإن إحداهما قد تکون غنیة و الأخری فقیرة، فلا یلزم التسویة بینهما مطلقا فی النفقة آه.

 الدر المختار (3/ 574-571):

 باب النفقة  هي لغة ما ينفقه الإنسان على عياله،وشرعا ( هي الطعام والكسوة والسكنى ) وعرفا هي الطعام ( ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة زوجية وقرابة وملك ) بدأ بالأول

لمناسبة ما مر، أو لأنها أصل الولد ( فتجب للزوجة ) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلاقه

رجع بما أخذته من النفقة، بحر ( على زوجها )؛ لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته...................... فتستحق النفقة ( بقدر حالهما )، به يفتى.

رد المحتار (3/ 574):

قوله ( به يفتى ) كذا في الهداية وهو قول الخصاف، وفي الولوالجية وهو الصحيح وعليه الفتوى. وظاهر الرواية اعتبار حاله فقط، وبه قال جمع كثير من المشايخ، ونص عليه محمد،  وفي التحفة والبدائع أنه الصحيح،  بحر.  لكن المتون والشروح على الأول.  وفي الخانية: وقال بعض الناس يعتبر حال المرأة.

قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين، وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة اه.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

5/ربیع الثانی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب