03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگر تم ان کے گھر گئی تو تم آزاد ہو
70019طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

جس شخص  سےمیری شادی ہوئی وہ جسمانی معذور ہے،اس وجہ سے میرے میکے والوں نے مجھ سے قطع تعلق کرلیا،اب میرے گھر والوں نے مجھ سے ملنا شروع کیا،جب میرا بیٹا میری بڑی بہن سے مجھے ملوانے لے کر جارہا تھا تو میرے شوہر نے کہا اگر تم ان کے گھر گئیں تو تم آزاد ہو،میں اس وقت رک گئی،مگر ایک بعد ہی میری بہن کے دیور کا انتقال ہوا جو ان کے گھر کے نیچے رہتا تھا،تو میرے شوہر نے کہا کہ انتقال میں چلی جاؤ،لیکن میں نہیں گئی۔

اس کے تین سے چار ماہ بعد شوہر کو اطلاع دیئے بغیر میں ان کے گھر چلی گئی،اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں۔

واضح رہے کہ فی الحال میاں بیوی کا کوئی تعلق نہیں ہے،یہ بھی بتادیں کہ رجوع کی کوئی صورت ہوسکتی ہے،براہِ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

تنقیح:

مستفتی سے فون پر پوچھنے سے معلوم ہوا کہ والد کا مقصد وقتی طور پر منع کرنا نہیں تھا،بلکہ مستقل طور پر ان کے گھر جانے سے منع کرنا،نہ اس وقت اور نہ بعد میں کسی اور دن۔

سوال:جس شخص  سےمیری شادی ہوئی وہ جسمانی معذور ہے،اس وجہ سے میرے میکے والوں نے مجھ سے قطع تعلق کرلیا،اب میرے گھر والوں نے مجھ سے ملنا شروع کیا،جب میرا بیٹا میری بڑی بہن سے مجھے ملوانے لے کر جارہا تھا تو میرے شوہر نے کہا اگر تم ان کے گھر گئیں تو تم آزاد ہو،میں اس وقت رک گئی،مگر ایک بعد ہی میری بہن کے دیور کا انتقال ہوا جو ان کے گھر کے نیچے رہتا تھا،تو میرے شوہر نے کہا کہ انتقال میں چلی جاؤ،لیکن میں نہیں گئی۔

اس کے تین سے چار ماہ بعد شوہر کو اطلاع دیئے بغیر میں ان کے گھر چلی گئی،اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں۔

واضح رہے کہ فی الحال میاں بیوی کا کوئی تعلق نہیں ہے،یہ بھی بتادیں کہ رجوع کی کوئی صورت ہوسکتی ہے،براہِ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

تنقیح:

مستفتی سے فون پر پوچھنے سے معلوم ہوا کہ والد کا مقصد وقتی طور پر منع کرنا نہیں تھا،بلکہ مستقل طور پر ان کے گھر جانے سے منع کرنا،نہ اس وقت اور نہ بعد میں کسی اور دن۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تم آزاد ہو کے الفاظ طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہیں،جن سے عام حالات میں طلاق واقع ہونے کا مدار نیت پر ہوتا ہے،لہذا اگر آپ کے شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے تو مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے،جس کے بعد عدت کے اندر یا عدت کےبعدنئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے،نیا نکاح کئے بغیر اس عورت کو بیوی بناناممکن نہیں ہے۔

نیز دوبارہ نکاح کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا،تین کا نہیں۔

حوالہ جات

"الفتاوى الهندية "(1/ 374):

" ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".

"الدر المختار " (3/ 355):

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ": (ج 3 / ص 285) :

"( فإن وجد الشرط فيه ) أي في الملك بأن كان النكاح قائما أو كان في العدة (انحلت اليمين ووقع الطلاق ".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

23/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب