021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رجسٹر کے صفحے پر طلاق لکھ کر دینا
69983طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میرےاور شوہر کے درمیان معمولی باتوں پر نوک جھونک چل رہی تھی،اس دوران باتوں باتوں میں  اس نے کہا کہ تم کچھ لے آؤ ،میں تمہیں لکھ کر دے دیتا ہوں،میں نے اسے رجسٹر اور پین دے دیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ پر قرآن پڑے اگر میں نہ لکھوں تو،اس کے ذہن میں یہ تھا کہ جب وہ اس طرح کہے گا تو میں اسے روکوں گی،لیکن میں اپنی ضد پر تھی کہ جب وہ لکھ رہا ہے تو میں کیوں روکوں،چنانچہ اس نے یہ الفاظ لکھے میں ظہور اسلم نسرین بی بی کو تلاق دیتا ہوں،میں ظہور اسلم نسرین بی بی کو تلاق دیتا ہوں، میں ظہور اسلم نسرین بی بی کو تلاق دیتا ہوں۔

اور لکھ کر وہاں بیڈ پر رکھ  کرگھر سے باہر نکل گیا،میں نے اسے اٹھاکر پڑھا اور اپنے پاس رکھ لیا،اب اس حوالے سے شرعی راہنمائی مطلوب ہے کہ طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوگئی تو رجوع کی کوئی صورت ہوسکتی ہے یا نہیں؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ صورت کتابت غیر مرسومہ کی ہے،اس لیے اس سے طلاق واقع ہونے کا مدار شوہر کی نیت پر ہے،اگر اس نے آپ کو طلاق دینے کی نیت سے یہ جملے لکھے ہیں جیسا کہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے تو آپ کو تین طلاقیں پڑچکی ہیں،لہذا اب شرعی حلالہ کیے بغیرموجودہ حالت میں آپ دونوں کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا۔

شرعی حلالے کا مطلب یہ ہے کہ مطلقہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے نکاح کرلے اور ان دونوں میں ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوجائیں،اس کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ کسی وجہ سے اس عورت کو طلاق دیدے،پھر عورت عدت گزارے،عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ممکن ہوسکے گا۔

اور اگر شوہر طلاق کی نیت کا انکار کرے اور اس پر قسم بھی اٹھانے کے لیے تیار ہو تو پھر ان جملوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (3/ 109):
"وأما النوع الثاني فهو أن يكتب على قرطاس أو لوح أو أرض أو حائط كتابة مستبينة لكن لا على وجه المخاطبة امرأته طالق فيسأل عن نيته؛ فإن قال: نويت به الطلاق وقع، وإن قال: لم أنو به الطلاق صدق في القضاء؛ لأن الكتابة على هذا الوجه بمنزلة الكتابة لأن الإنسان قد يكتب على هذا الوجه ويريد به الطلاق وقد يكتب لتجويد الخط فلا يحمل على الطلاق إلا بالنية وإن كتبت كتابة غير مستبينة بأن كتب على الماء أو على الهواء فذلك ليس بشيء حتى لا يقع به الطلاق وإن نوى؛ لأن ما لا تستبين به الحروف لا يسمى كتابة فكان ملحقا بالعدم، وإن كتب كتابة مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل: أن يكتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق، ولو قال: ما أردت به الطلاق أصلا لا يصدق إلا أن يقول: نويت طلاقا من وثاق فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل؛ لأن الكتابة المرسومة جارية مجرى الخطاب".
"الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي" (9/ 6902):
"أما الكتابة المستبينة فهي نوعان: كتابة مرسومة: وهي التي تكتب مصدَّرة ومعنونة باسم الزوجة وتوجه إليها كالرسائل المعهودة، كأن يكتب الرجل إلى زوجته قائلاً: إلى زوجتي فلانة، أما بعد فأنت طالق، وحكمها: حكم الصريح إذا كان اللفظ صريحاً، فيقع الطلاق ولو من غير نية.
وأما الكتابة غير المرسومة: فهي التي لا تكتب إلى عنوان الزوجة أو باسمها ولا توجه إليها كالرسائل المعروفة، كأن يكتب الرجل في ورقة: «زوجتي فلانة طالق». وحكمها حكم الكناية ولو كان اللفظ صريحاً، لا يقع بها الطلاق إلا بالنية".
"الدر المختار " (3/ 249):
"ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله ويدخل نحو طلاغ وتلاغ إلخ) أي بالغين المعجمة. قال في البحر: ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة فزاد على ما هنا ثلاثا. وزاد في النهر إبدال القاف لاما. قال ط: وينبغي أن يقال إن فاء الكلمة إما طاء أو تاء واللام إما قاف أو عين أو غين أو كاف أو لام واثنان في خمسة بعشرة تسعة منها مصحفة، وهي ما عدا الطاء مع القاف اهـ".
"الدر المختار"(3/ 300):
"(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول لہ بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

23/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب