021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدہوش کی طلاق کا حکم
70031طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

میری شادی آٹھ ماہ پہلے ہوئی تھی،میرا اور بیوی کا آپس میں کوئی جھگڑا نہ تھا،آپس میں خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے،میری بیوی چھ ماہ کی حاملہ بھی ہے،اس کے بعد میرا سسرال کے ساتھ تلخ کلامی کا سلسلہ شروع ہوا،مورخہ 14 جون2020 کو میرا سسر میرے گھر آیا،آپس میں گفتگو ہوتی رہی،میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ بات کو ختم کیا جائے،لیکن بات بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک پہنچ گئی،اس دوران مجھے شدید غصہ آیا اور اپنے آپ قابو نہ پاسکا،اس وقت میری کیفیت کچھ ایسی تھی کہ مجھے کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا ہے،میرے منہ کیا الفاظ نکلے اور اس وقت میں ہوش وحواس میں نہ تھا،کانپ رہا تھا اور چیخ رہا تھا،جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ اس دوران آپ کے منہ سے طلاق کے الفاظ نکلے،سسر کے مطابق چار مرتبہ،جبکہ وہاں نانی بھی موجود تھی،ان کے مطابق دو مرتبہ،جبکہ والدہ کے مطابق تین مرتبہ بولے اور مجھے کچھ بھی یاد نہیں کہ میں نے کیا بولا،ان کے بقول میرے الفاظ یہ تھے میں طلاق دیتا ہوں،اب قرآن وسنت کی روشنی میں مکمل وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

تنقیح

سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ اس موقع پر سسر،نانی،والدہ اور بیوی کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا،بیوی موجود تھی،لیکن اس کو یہ نہیں معلوم کہ میں نے کتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے،کیونکہ وہ کچھ دور تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عام طور پر طلاق غصے ہی کی حالت میں دی جاتی ہے اور عام غصے کی حالت میں دی جانے والی طلاق واقع ہوجاتی ہے،البتہ اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ اس دوران شوہر بالکل حواس باختہ ہوجائے اور اسے اپنے اوقوال اور افعال کی کچھ خبر نہ ہو تو ایسے غصے کی حالت میں دی جانے والی طلاق کے بارے میں تفصیل درج ذیل ہے:

اگر غصے کی وقت شوہر کی مذکورہ کیفیت لوگوں میں مشہور ہے اور وہ حلفیہ بیان دے کہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت اس پر یہی کیفیت طاری تھی تو طلاقیں واقع نہیں ہوئیں اور اگر غصے کی وقت اس کے مدہوشی کی یہ کیفیت لوگوں میں معروف نہ ہو تو پھر اگر دو معتبر مرد یا ایک معتبر مرد اور دو عورتیں یہ شہادت دیں کہ بوقت طلاق اس پر یہ کیفیت طاری  تھی تو بھی طلاق نہیں ہوگی۔

لیکن اگر غصے کے وقت شوہر کی یہ کیفیت لوگوں میں معروف نہیں اور نہ اس کے پاس اس پر گواہ موجود ہیں تو پھر طلاق واقع ہوجائے گی۔(احسن الفتاوی:5/162)

چونکہ مذکورہ صورت میں جو لوگ وہاں موجود تھے ان میں سے والدہ اور نانی کی گواہی تو شوہر کے حق میں معتبر نہیں،اس لیے گواہی کے ذریعے تو اس بات کا ثبوت ممکن نہیں رہا،لہذا اگر غصے کے وقت شوہر کی مذکورہ کیفیت لوگوں میں معروف بھی نہ ہوتو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔

نیز طلاق کے عدد میں شک کی صورت میں اقل پر فیصلہ کیا جاتا ہے،اس لیے مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوں گی جس کے بعد شوہر عدت کے دوران بغیر نیا نکاح کیے رجوع کرسکتا ہے،جبکہ عدت گزرنے کے بعد نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا اور اس کے بعد شوہر کو فقط ایک طلاق کا اختیار حاصل ہوگا،اس کے دینے کی صورت میں بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوجائے گی اور اس حالت میں دوبارہ نکاح ممکن نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
" رد المحتار" (3/ 244):
"وسئل نظما فيمن طلق زوجته ثلاثا في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظما أيضا بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان. اهـ".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(1/ 38):
"(سئل) في رجل حصل له دهش زال به عقله وصار لا شعور له لأمر عرض له من ذهاب ماله وقتل ابن خاله فقال في هذه الحالة يا رب أنت تشهد على أني طلقت فلانة بنت فلان يعني زوجته المخصوصة بالثلاث على أربع مذاهب المسلمين كلما حلت تحرم فهل لا يقع طلاقه؟
(الجواب) : الدهش هو ذهاب العقل من ذهل أو وله وقد صرح في التنوير والتتارخانية وغيرهما بعدم وقوع طلاق المدهوش فعلى هذا حيث حصل للرجل دهش زال به عقله وصار لا شعور له لا يقع طلاقه والقول قوله بيمينه إن عرف منه الدهش وإن لم يعرف منه لا يقبل قوله قضاء إلا ببينة كما صرح بذلك علماء الحنفية رحمهم الله تعالى".
"البحر الرائق " (7/ 80):
"(قوله والولد لأبويه وجديه وعكسه) أي لم تقبل شهادة الفرع لأصله والأصل لفرعه للحديث".
"الفتاوى البزازية" (3/ 27):
"شك أنه طلق واحدة أو أكثر فهي واحدة إلى أن يستيقن بالأكثر أو يكون أكثر ظنه على خلافه".
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني" (3/ 317):
" وفي «نوادر ابن سماعة» عن محمّد رحمهما الله: إذا شكَّ أنه طلّق واحدة أو ثلاثاً، فهي واحدة حتّى يستيقن، أو يكون أكثر ظنّه على خلافه".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب