021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقف سے متعلق متفرق سوالات
70279وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

  السلام علیکم مفتی صاحب! میں اپنی جائیداد میں سے 60٪ حصہ وقف کرنا چاہتا ہوں جس میں منقولہ و غیر منقولہ دونوں قسم کی جائیداد شامل ہے۔اس وقف کا مقصد پاکستان میں بچوں کی تعلیم حاصل کرنے میں مدد کرنا ہے جس میں ضرورت مند بچوں کے لیے سکالرشپ،سکولوں کے لیے نصاب سازی و  دیگر سہولیات شامل ہیں اور اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہوگا جس کے تحت باقاعدہ تحقیق کے بعد وظائف وغیرہ جاری ہوں گے۔اس وقف کے نگران جب تک زندگی ہے تب تک میں ،میری بیوی اور میرے تین بچے ہوں گے جو کہ باقاعدہ طور پر ٹرسٹی کہلائیں گے اور ہماری زندگی کے بعد کے لیے  ہم اس وقف کو باقاعدہ ایک دینی ادارے کی زیرنگرانی لکھ کر دے رہے ہیں۔ اس وقف کی چیدہ چیدہ شرائط درج ذیل ہیں:

                                    1۔اس ٹرسٹ/وقف کی جتنی بھی آمدنی ہوگی مثلا بلڈنگ و گودام کے کرایہ وغیرہ کی مد میں اس کا 40  فیصد حصہ پانچوں ٹرسٹیز (جو کہ میں ڈاکٹر محمد رفیق ،میری بیوی اور میرے 3 بچے ہیں)کو ملے گا ،یعنی ہر ایک کو 8٪ ملے گا اور یہ نسل در نسل چلتا جائے گا۔نیز کسی بھی ٹرسٹی کے انتقال کی صورت میں اس کا حصہ اس ٹرسٹی کی خواہش پر   ٹرسٹ ہی کو صدقہ کے طور پر دیا جاسکے گا۔

                                    2۔ٹرسٹ /وقف کی آمدنی کا 30٪ حصہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔

                                    3۔آمدنی کا 30٪ حصہ ٹرسٹ کے انفراسٹرکچر،آمدنی کو بڑھانے والے ذرائع کی بہتری و بڑہوتری وغیرہ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔

                                    4۔ٹرسٹ/وقف کے نفع کو بڑھانے کے لیے وقف کی کسی بھی پراپرٹی(منقولہ و غیر منقولہ) کو بیچا جاسکتا ہے،کسی دوسری پراپرٹی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن منافع ہمیشہ وقف ہی کے رہیں گے۔

                                    5۔ٹرسٹ کے منافع  کو بڑھانے کے لیے ٹرسٹ کی حاصل شدہ آمدنی کو کاروبار میں لگایا  جاسکے گا۔

                                    اس ساری تفصیل و شرائط کے بیان کے بعد میرے مندرجہ  ذیل سوالات ہیں:

                                    1۔کیا میرے وقف/ٹرسٹ کی شرائط و طریقہ کار شرعی طور پر درست ہے؟اگر نہیں ہے جہاں غلطی   ہے اس کی تصحیح کردی جائے ، اس کو درست کرلیا جائے گا۔

                                    2۔ایک حدیث ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک ثلث سے زیادہ کی وصیت نہ کی جائے جبکہ میں نے اپنے جائیداد کا 60 فیصد وقف کررہا ہوں اور 40٪ حصہ ورثا کے لیےچھوڑ رہا ہوں تو یہ خلاف شریعت تو نہیں؟یعنی میں اپنے ورثا کا حق تو نہیں ماررہا؟جبکہ تمام ورثا بہت اچھی مالی حالت میں ہیں،مختلف ممالک میں جاب کررہے ہیں۔

                                    3۔کیا ٹرسٹ/وقف کی  حاصل شدہ آمدنی سے مزید آمدن بڑھانے کے لیے کاروبار کرنا درست ہے؟

                                    4۔میں اس ٹرسٹ کو ایک قانونی طریقے کے مطابق رجسٹرڈ کروانا چاہتا ہوں جو کہ بہت مشکل ہورہا ہے مثلا بہت سی جگہ پر رشوت کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو کہ میں نہیں دینا چاہتا تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟اگر کہیں پر بالکل کام ہو ہی نہ رہا ہو تو کیا وہاں رشوت دی جاسکتی ہے؟

                                    5۔ اس وقف/ٹرسٹ کو جب تک ہماری زندگی ہے اس وقت تک میں ڈاکٹر محمد رفیق ،میری بیوی اور میرے تین بچے نگرانی اور وقف کے دیگر امور بھی سرانجام دیں گے ،تو سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا اس وقف/ٹرسٹ کی آمدن سے تنخواہ کی مد میں رقم لینا درست ہوگا؟ 

                                    6۔کیا وقف کے منافع کو بڑھانے کے لیے وقف کی کسی پراپرٹی کو بیچا یا کسی دوسری پراپرٹی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

                                    7۔نیز اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں کہ  ابھی وقف کرتے وقت کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی میں قسطیں ادا کررہا ہوں مثلا ایک بلڈنگ ہے،جن پر میرا قبضہ کچھ ماہ بعد آئے گا تومیں نے اس میں نیت یہ کی ہے کہ وقف کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس بلڈنگ کو فروخت کرکے کہ اس کی رقم وقف/ٹرسٹ کے لیے کاروبار میں  لگاؤں  گا  یا

                         اس کو کرایہ پر دے دوں گا جس کی آمدنی وقف/ٹرسٹ کے لیے آتی رہے گی۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1۔ٹرسٹ کی  جن شرائط میں مسئلہ ہے ،ان  کی نشاندہی و صحیح حکم آگے آنے والے جوابات میں آجائے گا۔

2۔یہ حدیث وصیت سے متعلق ہے  چنانچہ وصیت سے متعلق حکم یہی ہے کہ وہ  ایک ثلث تک تو مطلقا  نافذ ہوتی ہےاور ثلث سے زیادہ تمام بالغ  ورثاء کی رضامندی سے نافذ کی جاسکتی ہے،جبکہ نابالغ کا حصہ اسے پورا دینا لازم ہے ۔جب کہ آپ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد کا 60 فیصد حصہ وقف کرنا چاہتے ہیں  اور انسان اپنی زندگی میں اپنے مال کو (جائز  کے دائرہ میں رہتے ہوئے) خرچ کرنے میں آزاد ہوتا ہے ، وہ جس کو چاہے ہدیہ دے ، فی سبیل اللہ خرچ کرے یا جس ضرورت میں چاہے خرچ کرے۔نیز آپ کے ممکنہ تمام ورثا اس پر راضی بھی ہیں لہٰذا آپ کا 60 فیصد جائیداد وقف کرنا  شرعا درست بھی ہے اور اس سے آپ کو ورثا کا حق متاثر کرنے کا گناہ بھی نہ ہوگا۔

3۔ وقف کی حاصل شدہ آمدنی کو کاروبار میں لگانا  جب کہ خود واقف نے اجازت بھی دی ہو تاکہ وقف کی آمدنی مزید بڑھ سکے اور وقف/ٹرسٹ کے مقاصد مزید اچھے طریقے سے پورے کیے جاسکیں ،جائز ہے،۔ البتہ کاروبار ایسا ہو کہ جس میں غالب امکان نفع ہی کا ہو۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ وقف کے اثاثہ جات کو فروخت کرکے کاروبار کرنا درست نہ ہوگا(فروخت کرنے کی مزید تفصیل اگلی شقوں میں آئے گی)، البتہ وقف کے منافع کو ولی کی اجازت سے  کاروبار میں لگانے کی گنجائش ہوگی۔

4۔رشوت دینے اور لینے سے متعلق عام اصول یہ ہے کہ یہ بالکل بھی جائز نہیں ،حدیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ لیکن اگر کبھی ایسا مسئلہ ہو جس میں کسی شخص کا جائز کام بھی رشوت کے بغیر نہ ہوتا ہو اور اس کام کے نہ ہونے سے اس شخص کو ضرر پہنچتا ہو تو اس کام کے لیے بحالت مجبوری  رشوت دینے کی صورت  میں رشوت دینے والے کو گناہ نہ ہوگا لیکن رشوت لینے والے شخص کے لیے وہ  مال حرام ہوگا اور گناہ بھی ہوگا۔

لیکن آپ کا کام چونکہ "جلب منفعت "ہے نا کہ "دفع مضرت" ،لہٰذا  آپ دیگر ذرائع ،تعلقات اور اثر رسوخ استعمال کرکے اس کام کو قانونی طریقے ہی سے کرنے کی کوشش کریں ۔ان شاء اللہ آپ کا کام ضرور ہوجائے گا۔البتہ اگر بھرپور کوشش کے باوجود کام نہیں ہوپارہا تو چونکہ وقف کرنا آپ کا قانونی و شرعی حق ہے جس میں کام کرنے والے اہلکار رکاوٹیں ڈال رہے ہیں لہٰذا  حاکم سے اپنے حق کو استعمال کرنے کے لیے بیچ میں رکاوٹ بننے والے اہلکاروں کو بحالت مجبوری آپ کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہوگی۔

5۔آپ چونکہ خود ہی واقف ہیں اور خود ہی متولی بھی ،لہٰذا آپ کا اپنی بیوی و بچوں کے لیے نگرانی/ولایت کا لکھنا درست ہے  اور اپنے اوپر یا اپنی اولاد اور  گھر والوں پر وقف  کرنا بھی درست ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یوں کہیں کے اس وقف کی آمدنی کا 40 فیصد حصہ میری ذریت پر وقف ہے یا یہ کہ اپنے موجودہ بچوں کے نام لے کر یہ تصریح کردیں کہ ان کے لیے اور آئندہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے وقف ہے تو اس سے یہ وقف آپ کی اولاد پر نسل در نسل چلتا رہے گا۔لہٰذا  وقف کی آمدنی کا جتنے فیصد حصہ اپنے آپ پر،اپنی بیوی اور بچوں پر وقف کریں گے  وہ بلا تردد جائز ہوگا۔

البتہ  آپ  کا اپنی یا اپنے بیوی بچوں کو وقف کے امور سرانجام دینے  سے متعلق تنخواہ کا حکم یہ ہے کہ اتنی تنخواہ دے سکتے ہیں جو کہ اس جیسا کام کرنے پر عام طور پر لوگوں کو اجرت ملتی ہے۔لہٰذا آپ ایک اجرت مثل طے کرسکتے ہیں ۔

6۔وقف جب درست ہوجائے تو  موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں آجاتی ہے لہٰذا اس پراپرٹی کا فروخت کرنا یا اس کو کسی دوسری پراپرٹی کے ساتھ تبدیل کرنا،کسی کو ہبہ کرنا،کسی کو مالک بنانا یا کسی کی میراث میں تقسیم کرنا  جائز نہیں الا یہ کہ وقف کرتے وقت ہی آپ یہ شرط لگاتے ہیں کہ میں وقف کی فلاں پراپرٹی کو ضرورت پڑنے پر تبدیل بھی کرسکتا ہوں اور فروخت کرکے اس کی رقم وقف کے کاروبار وغیرہ میں بھی لگاسکتا ہوں تاکہ وقف کے منافع بڑھائے جاسکیں  تو ایسا کرنا درست ہوگا،جیسا کہ آپ نے ٹرسٹ ڈیڈ میں شرط رکھی ہے،لہٰذا صورت مسئولہ کے مطابق وقف کی پراپرٹی کو فروخت کرکے کے کاروبار میں لگانا درست ہوگا۔

7۔کسی چیز کے وقف کرنے کے لیے اس چیز کا آپ کی ملکیت میں ہونا ضروری ہے۔لہٰذا جو چیز ابھی آپ کی ملکیت یا قبضے ہی  میں نہ ہو تو اس کا وقف کرنا درست نہیں اور جس چیز پر ابھی قبضہ آچکا ہے چاہے اس کی کچھ اقساط ابھی باقی ہوں تب بھی وہ آپ ملکیت ہے اور ان چیزوں میں یہ نیت کرنا اور یہ شرط لگانا  کہ آئندہ چل کر اس کو فروخت کرکے وقف کے لیے کاروبار میں لگایا جائے گا درست  ہے ۔

البتہ جن چیزوں پر آپ کا قبضہ نہیں ہے ،مستقبل میں جب ان چیزوں پر آپ کی ملکیت آجائے تو آپ کو اختیار ہوگا  چاہے تو وہی  چیز  وقف  کریں چاہے  تو اس کو  فروخت  کرکے  وقف  کے

کاروبار میں لگائیں۔

                       

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وشرعا (حبس العين على) حكم (ملك الواقف والتصدق بالمنفعة) ولو في الجملة،والأصح أنه (عنده) جائز غير لازم كالعارية (وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة. (الدر المختار:4/337)
                                                قال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی رحمہ اللہ:  ثم عند محمد لصحة الوقف أربعة شرائط: التسليم إلى المتولي، وأن يكون مفرزا، وألا يشترط لنفسه شيئا من منافع الوقف، وأن يكون مؤبدا بأن يجعل آخره للفقراء. لما روي عن عمر وابن عباس ومعاذ رضي الله عنهم ،أنهم قالوا: لا تجوز الصدقة إلا محوزة مقبوضة، ولأن التمليك حقيقة من الله لا يتصور لأنه مالك الأشياء، وإنما يثبت ذلك ضمنا للتسليم إلى العبد كالزكاة، ولأنه متى كان له شيء من منافع الوقف لم يخلص لله  تعالى .
وقال أبو يوسف: شيء من ذلك ليس بشرط لأنه إسقاط، وصار كالإعتاق، وأخذ مشايخ خراسان بقول أبي يوسف ترغيبا .(الاختيار لتعليل المختار :3/ 41)
                                                وقال ایضا: ويجوز وقف العقار، ولا يجوز وقف المنقول (س) ، وعن محمد جواز وقف ما جرى فيه التعامل كالفأس والقدوم والمنشار والقدور والجنازة والمصاحف والكتب،بخلاف ما لا تعامل فيه، والفتوى على قول محمد. لوجود التعامل في هذه الأشياء، وبالتعامل يترك القياس كما في الاستصناع، قال عليه الصلاة والسلام : "ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن" ، (بخلاف ما لا تعامل فيه) كالثياب والأمتعة ؛ لأن من شرط الوقف التأبيد كما بينا تركناه في السلاح والكراع بالنص، وفيما جرى فيه التعامل بالتعامل، فبقي ما وراءه على الأصل (والفتوى على قول محمد) لحاجة الناس وتعاملهم بذلك. . .ولا جناح على من وليه أن يأكل منه بالمعروف أو يؤكل صديقا له غير متأثل. (    الاختيار لتعليل المختار :3/ 43)
                                              وقال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ: وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعودمنفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث.واللفظ ينتظمهما والترجيح بالدليل. لهما ،قول النبي  صلى الله عليه وسلم ، لعمر  رضي الله عنه ، حين أراد أن يتصدق بأرض له تدعى ثمغ:" تصدق بأصلها لا يباع ولايورث ولا يوهب"ولأن الحاجة ماسة إلى أن يلزم الوقف منه ليصل ثوابه إليه على الدوام، وقد أمكن دفع حاجته بإسقاط الملك وجعله لله تعالى. (فتح القدير للكمال ابن الهمام :6/ 203)
                                                و فی الفتاوی  الھندیۃ:وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم، ولا يباع ،ولا يوهب، ولا يورث، كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية.( الفتاوى الهندية: 2/ 350)
                                                وفیہ ایضا:(الفصل الثاني في الوقف على نفسه وأولاده ونسله): رجل قال: أرضي صدقة موقوفة على نفسي، يجوز هذا الوقف على المختار، كذا في خزانة المفتين.ولو قال: وقفت على نفسي ثم من بعدي على فلان ثم على الفقراء جاز عند أبي يوسف رحمه الله تعالى ،كذا في الحاوي.
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                ( الفتاوى الهندية :2/ 371)
                                                و فیہ ایضا:إذا شرط في أصل الوقف أن يستبدل به أرضا أخرى إذا شاء ذلك ،فتكون وقفا مكانهم، فالوقف والشرط جائزان عند أبي يوسف  رحمه الله تعالى ، وكذا لو شرط أن يبيعها ويستبدل مكانها وفي واقعات القاضي فخر الدين قول هلال رحمه الله تعالى مع أبي يوسف رحمه الله تعالى ،وعليه الفتوى كذا في الخلاصة وليس له بعد استبداله مرة أن يستبدل ثانيا؛ لانتهاء الشرط بمرة إلا أن يذكر عبارة تفيد له ذلك دائما كذا في فتح القدير. (الفتاوى الهندية :2/ 399)
                                                وقال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ:وفي فتاوى قاضي خان: أجمعوا أن الواقف إذا شرط الاستبدال لنفسه، يصح الشرط والوقف، ويملك الاستبدال. أما بلا شرط، أشار في السير إلى أنه لا يملكه إلا بإذن القاضي، ولا يخفى أن محل الإجماع المذكور كون الاستبدال لنفسه إذا شرطه له. وفي القاضي فيما لا شرط فيه لا في أصل الاستبدال، وإلا فهو قد نقل الخلاف. وعرف من هذا أن محمل ما ذكرناه عن الأنصاريما إذا لم يشرطه لنفسه، ثم إذا اشترى البدل للوقف صار وقفا، ولا يتوقف وقفيته على أن يقفه بلفظ يخصه، وليس للقيم أن يوصي بالاستبدال لمن يوصى إليه عند موته بالوقف.
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  ( فتح القدير للكمال ابن الهمام :6/ 228)
                                                قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلى الليل أو يومين فتصير منافعه مملوكة ثم يستعمله في الذهاب إلى السلطان للأمر الفلاني، وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم والحيلة أن يستأجره إلخ قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع. الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين:5/ 362)

محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

     26 صفر المظفر 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب