021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام کے عزل و نصب اور انتظامی کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار متولی کو ہے یا امام کو؟
70873وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

میں نے کافی عرصہ پہلے اپنی مسجد میں ایک قاری صاحب کو بطورِ امام اور مدرس مقرر کیا تھا،کافی عرصہ گزرنے کے بعد قاری صاحب نے فرمایا میں امامت نہیں کرواسکتا،میرا شرعی عذر ہے،امامت میرے بیٹے یا شاگرد کریں گے،میں نے ان سے کہا کہ امامت کے لیے ہم عالمِ دین رکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں مسائل وغیرہ بھی بتائے گا اور درسِ قرآن اور درس حدیث بھی دے گا اور مسجد کے ایک کمیٹی بنانا چاہتے ہیں جس کے مشورے سے مسجد کا نظام چلے گا،لیکن قاری صاحب اسی بات پر بگڑگئے اور شور برپا کردیا کہ کمیٹی بھی ہماری ہے اور امامت بھی ہم خود کریں گے اور اسی دوران درس گاہ کے اوپر بچوں کے لیے رہائش گاہ بنی ہوئی تھی،قاری صاحب نے اپنی فیملی وہاں منتقل کرکے قبضہ جمالیا،اب قاری صاحب نے انتشار پھیلایا ہوا ہے،کوئی بات نہیں مانتے،اب اس تمہید کے بعد درج ذیل سوالات کے جواب مطلوب ہیں:

1۔قاری صاحب جو شرعی عذر کی بنا پر امامت سے فارغ ہیں،وہ فرماتے ہیں کہ آئندہ امام مسجد میں خود مقرر کروں گا،جو خود مقررشدہ ہیں کیا وہ کسی اور کی تقرری کا اختیار رکھتے ہیں؟یا یہ کام مسجد اور مدرسے کے متولی کا ہے؟

2۔مسجد و مدرسہ کی مجلس شوری کی تشکیل متولی مسجد و مدرسہ کی ذمہ داری ہے یا امام کو اس کا اختیار ہے؟

3۔ کیا امام کا مسجد و مدرسے پر قابض ہونا غاصبوں میں شمار نہیں ہوگا اور ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہو،یعنی مسجد اور مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں اصل کردار خود متولی نے ادا کیا ہو،قاری صاحب کو فقط امامت اور تدریس کے لیے رکھا گیا ہو تو پھر قاری صاحب کے مطالبات درست نہیں اور مسجد کے لیے امام کے عزل ونصب اور انتظامی امور کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار مسجد کے متولی کو حاصل ہوگا۔

لہذا ایسی صورت میں قاری صاحب کو انتظامی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے اور اگر وہ شرعی عذر کی وجہ سے امامت کے اہل نہیں رہے تو ان کے لیے اس عہدے پر قبضہ جمائے رکھناجائز نہیں۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (1/ 559):
"(ولو أم قوما وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريما لحديث أبي داود «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما وهم له كارهون» (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب