021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسی ویب سائٹ کے لیے کام کرنے کا حکم جو مصنوعات کی فروخت کے لیےعورتوں کی تصاویر پر مشتمل اشتہار چلاتی ہو
70266جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم مفتی صاحب! میں ایک آئی ٹی پروفیشنل ہوں ہمارا کام مختلف کمپنیز کو ویب سائٹ سے متعلق خدمات دینا ہے۔ دنیا میں مختلف چیزوں کی فروخت کے لیے مختلف ویب سائیٹس یا ویب پیجز چل رہے ہوتے ہیں ۔ اب ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ ہم اس ویب سائٹ کی ایس سی او پر کام کرتے ہیں جس کا فائدہ یہ ہوگا  کہ جب کوئی شخص اس چیز کو تلاش کرے گا تو گوگل سب سے پہلے ہماری ویب سائٹ کو دکھائے گا۔ مثال کے طور پر ایک ویب سائٹ عورتوں کی جیولری کی خرید و فروخت کرتی ہے ۔ اب ہم ویب سائٹ کی سیٹنگ پر کام کریں گے پھر کوئی بھی شخص جیولری سے متعلق گوگل پر سرچ کرے گا تو ہماری ویب سائٹ  سب سے پہلے اس کے سامنے ظاہر ہوگی۔

                                    اب اس تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ یہ ویب سائٹ والے جیولری کی تشہیر  کے لیے عورتوں کی تصاویر بھی لگاتے ہیں تو کیا اس ویب سائٹ کی پرموشن (جس کا اصل مقصد جیولری کی فروخت ہے)کے لیے کام کرکے اجرت لینا جائز ہوگا؟ جبکہ تصویر میں نے اپلوڈ نہیں کی بلکہ کمپنی یہ کام خود کرتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 ایسی کمپنی جس کا کاروبار جائز ہو، اس کمپنی کی ویب سائٹ کے لیے کام کرنا بھی جائز ہوگا۔ البتہ اگر کوئی کمپنی اس جائز کاروبار کی تشہیر کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرتی ہے مثلا غیر محرم عورتوں کی تصاویر یا میوزک وغیرہ تو ایسا کرنا ناجائز ہے اور  کمپنی  کے زمہ داروں کو  ا س کا گناہ بھی ہوگا۔

       صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ آپ کا کام صرف ویب سائٹ کو اوپر لانا ہوتا ہے اور ناجائز ذرائع کے  اختیار کرنے میں آپ کی طرف سے کوئی عمل نہیں پایا جاتا ،لہٰذا آپ کے لیے اس کمپنی کی ویب سائٹ پر کام کرنا درست ہوگا۔لیکن اگر کسی کمپنی کا کاروبار ہی ناجائز ہے مثلا سودی کاروبار یا شراب کی خرید و فروخت  وغیرہ کرنے والی کمپنیاں تو ایسی کمپنی کی ویب سائٹ کے لیے کام کرنا آپ کے لیے  درست نہ ہوگا۔

حوالہ جات
وقال اللہ تبارک و تعالی:وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.(سورۃ المائدۃ:2)
و قال ابن کثیر رحمہ اللہ:وقوله: "وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان" يأمر تعالی عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصرعلى الباطل. والتعاون على المآثم والمحارم.(تفسير ابن كثير:12/2)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ :و جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله :(وجاز إجارة بيت إلخ): هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها، أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي ،والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه، اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية.( الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 6/ 392)
قال الامام السرخسی رحمہ اللہ:ولا بأس بأن يؤاجر المسلم دارا من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب، أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك؛ لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك كمن باع غلاما ممن يقصد الفاحشة به، أو باع جارية ممن لا يشتريها، أو يأتيها في غير المأتى لم يلحق البائع إثم في شيء من هذه الأفعال التي يأتي بها المشتري. (المبسوط للسرخسي :16/ 39)

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

    24 صفر المظفر 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب