021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اس کو طلاق ہے،اسے لے جاؤ
70788طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

بندہ کی بہن کو شوہر نے میرے سامنے کہا کہ اس کو طلاق ہے،اسے اپنے گھر لے جاؤ،نیز بہن خود بھی اس کی معترف ہے،اس کے بعد بہن کچھ عرصہ اسی شخص کے گھر رہی،پھر شوہر نے ایک نامحرم کے ہمراہ اسے ہمارے گھر بھیج دیا اور آج اس واقعے کو نو سال ہونے کو ہیں،اس کے بعد نہ اس نے رابطہ کیا اور نہ ہی اپنے بچوں کے لیے کوئی نان نفقہ دیا اور نہ ہی اس سے کوئی رابطہ ہوپا رہا ہے،نیز ہم نے ایک ڈیڑھ سال پہلے بہن کے لیے عدالتی خلع بھی لیا ہے۔

اب معلوم یہ کرنا ہےکہ کیا مندرجہ بالا الفاظ اس کو طلاق ہے،اسے لے جاؤ سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اور اب بہن کا سابقہ نکاح باقی ہے یا ختم ہوچکا ہے،سنا ہے کہ وہ آدمی کسی اور کی منکوحہ کو ساتھ لے گیا ہے اور اس سے شادی کرلی ہے،جس کی وجہ سے لوگوں سے چھپا ہوا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حائضہ)جس عورت کو ماہواری آتی ہو) عورت کی عدت تین ماہواریاں ہیں اور جس عورت کو حیض)ماہواری) نہیں آتا اس کی عدت تین مہینے ہیں۔

چونکہ شوہر کے الفاظ "اس کو طلاق ہے "سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھی،اس لیے شوہر کے ان الفاظ کوبولنے کے بعد اگر آپ کی بہن کو تین ماہواریاں آچکی ہیں تو اس کی عدت گزرچکی ہے اور اگر اس کو حیض نہیں آتا تو پھر تین مہینے گزرنے کی وجہ سےاس کی عدت گزرچکی ہے،اگرعدت کے دوران شوہر نےزبانی یا عملی طور پر طلاق سے  رجوع نہیں کیا تو آپ کی بہن کا سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور اب اس کا کسی دوسری جگہ نکاح ہوسکتا ہے۔

یہ حکم اس عورت کا ہے جوامید سے نہ ہو،جو عورت امید سے ہو اس کی عدت بچے کی ولادت تک ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ یہ جواب ایک فریق کے بیان کی بنیاد پر ہے،اگر واقعہ میں حقیقت کچھ اور ہو تو یہ جواب لاگو نہ ہوگا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 226):
"كتاب الطلاق (هو) لغة رفع القيد لكن جعلوه في المرأة طلاقا وفي غيرها إطلاقا، فلذا كان أنت مطلقة بالسكون كناية وشرعا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله أو المآل) أي بعد انقضاء العدة أو انضمام طلقتين إلى الأولى".
"الفتاوى الهندية "(1/ 471):
"وتنقطع الرجعة إن حكم بخروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرة والثانية إن كانت أمة لتمام عشرة أيام مطلقا وإن لم ينقطع الدم كذا في البحر الرائق وإن انقطع لأقل من عشرة أيام لم تنقطع حتى تغتسل أو يمضي عليها وقت صلاة كذا في الهداية".
"الفتاوى الهندية "(1/ 526):
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.
والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية.....
وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

06/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب