021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائیوں کی ذاتی کمائی سے خریدی گئی جائیداد میں وراثت کا حکم
70791میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

: سہیل اعظم آپ سے مخاطب ہے،وراثت کے حوالے سے آپ مہربانی کرکے اپنا قیمتی وقت نکال کر مجھے دین اور شریعت کے روشنی میں دلائل کے ساتھ آگاہ کریں۔

ایک بندہ ہے الف،اس کے تین بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، والد اور والدہ زندہ ہیں، وہ بندہ خود اور اس کے ساتھ چھوٹا بھائی ولایت محنت و مزدوری کے لئے چلے جاتے ہیں، دوبھائی وطن عزیز میں رہ جاتے ہیں جوعمر میں ان سے کافی چھوٹے ہیں،وہ دو بھائی جو ولایت میں ہیں باپ کو پیسے بھیجتے رہتےہیں اور والد محترم اثاثہ جات لیتے جاتے ہیں، وقت گزرتا جاتا ہے، اس اثناء میں سب سے بڑے بھائی کو لا علاج بیماری ہو جاتی ہےاورطویل علالت کے بعد وہ اس دار فانی سے کوچ کرجاتے ہیں، چار سال بعد والد محترم بھی دار فانی سے کوچ کرجاتے ہیں، دو سال بعد بھائی (س ) بھائی (ب) کے ساتھ مل کر اثاثہ جات اپنے اور دو بھائیوں کے نام کرلیتے ہیں، مطلب تین بھائیوں کے نام پر،پانچ بہنوں، بیوہ(یعنی مرحوم بھائی کی بیوی) اور اس کے پانچ بچوں کو نکال کر، اس واقعے کی خبر خاندان کے بزرگ حضرات کو معلوم ہوجاتی ہے، اور وہ حضرات ان بھائیوں پر برس پڑتے ہیں کہ جس مرحوم بھائی  کے پیسوں سے اثاثہ جات خریدے ہیں، ان کے بچوں کو تم نے جائیداد سے بے دخل کردیا،مشرف کے دور میں قانون بنا تھا کہ باپ اپنے بیٹے کو عاق نہیں کرسکتا، اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو عاق کردے تو قانونی طور پر اس کو وراثت میں حصہ ملے گا، اور اسی قانون میں ہے کہ اگر بیٹا باپ سے پہلے دار فانی سے کوچ کر جاتا ہےتو بھی اس بیٹے کے ورثہ (بیوہ اور بچوں) کو حصہ ملے گا، اسی قانون کے تحت انتقال شدہ جائیداد واپس تین بھائیوں، مرحوم کی بیوہ بچوں اور پانچ بہنوں میں تقسیم کی گئی۔

اب علاقے کے بڑے بزرگ حضرات کہتے ہیں کہ بھائیوں کے پیسوں سے خریدی ہوئی جائیداد بھائیوں کی ہے اگرچہ باپ نے اپنے نام کردی ہو، تب بھی بھائیوں میں تقسیم ہوگی،بہنوں کا کوئی حصہ نہیں ہے،ہاں اگر باپ نے اپنے پیسوں سے کوئی جائیداد خریدی ہو یا ان کے باپ دادا سے ان کو وراثت میں کوئی جائیداد ملی ہو، تب وہ جائیداد وراثت میں بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم ہوگی۔

اس مسئلے کے حوالے سے دین اور شریعت کے دلائل کی روشنی میں آپ کی قیمتی رائے کا منتظر ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصولی طور پر میراث میں صرف ان ورثہ کو حصہ ملتا ہے جو مرحوم کے انتقال کے وقت زندہ ہوں،اس سے پہلے جن ورثہ کا انتقال ہوچکا ہو،ان کے ورثہ کو میراث میں سے حصہ نہیں ملتا،لہذا سوال میں ذکر کردہ  یہ قانون درست نہیں کہ بیٹے کا اگر باپ سے پہلے انتقال ہوجائے پھر بھی اس کا میراث میں حصہ ہوگا جو اس کے ورثہ میں تقسیم ہوگا ،تاہم اگر تمام ورثہ باہمی رضامندی سے مرحوم بھائی کی بیوہ اور بچوں کو دیا گیا حصہ واپس نہ لینا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں،بلکہ بڑے اجر و ثواب کی بات ہے۔

نیز مشترک خاندانی نظام میں بیٹے باپ کو جو رقوم دیتے یا بھیجتے ہیں اس کے حوالے سے اکثر علاقوں میں عرف یہ ہے کہ وہ رقوم باپ کی ملک سمجھی جاتی ہیں،لہذا جب تک اس کے خلاف کسی قسم کی تصریح موجود نہ ہو تو ایسی رقوم اور ان کے ذریعے خریدی گئی جائیداد باپ ہی ملکیت شمار ہوں گی۔

درج ذیل قرائن ایسے ہیں جن سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے علاقے کا عرف بھی یہی ہے کہ اس طرح کی رقوم باپ کو تملیکاً دی جاتی ہیں:

1۔مرحوم باپ کا معاملہ از خود کرکے بیٹوں کو اطلاع دینا اور رقم منگوانا

2۔ان اثاثہ جات کا مرتے دم تک مکمل طور پر والد کے اختیار اور تصرف میں رہنا اور بیٹوں کا اس پر راضی رہنا

3۔پہلی تقسیم پر علاقے کے بعض بزرگوں کا اعتراض کرنا

4۔ بھائیوں کا ان کے اعتراض کو بجا سمجھ کر دوبارہ تقسیم کرنا

لہذا مذکورہ صورت میں مرحوم والد نے بھائیوں کی بھیجی ہوئی رقوم سے جو جائیداد خریدی ہے وہ والد ہی کی ملکیت ہوگی اور ان کے مرنے کے بعد ان کی وفات کے وقت موجود تمام ورثہ میں شرٕعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
"البحر الرائق " (8/ 577):
قال – رحمهﷲ - (ولا توارث بين الغرقى والحرقى إلا إذا علم ترتيب الموت) أي إذا مات جماعة في الغرق أو الحرق ولا يدرى أيهم مات أولا جعلوا كأنهم ماتوا جميعا فيكون مال كل واحد منهم لورثته ولا يرث بعضهم بعضا إلا إذا عرف ترتيب موتهم فيرث المتأخر من المتقدم وهو قول أبي بكر وعمر وزيد وأحد الروايتين عن علي - رضي ﷲ عنه - وإنما كان كذلك؛ لأن الإرث يبنى على اليقين بسبب الاستحقاق وشرطه وهو حياة الوارث بعد موت المورث ولم يثبت ذلك فلا يرث بالشك".
"رد المحتار" (5/ 688):
"وفي خزانة الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري.
قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك كمن دفع لفقير شيئا وقبضه، ولم يتلفظ واحد منهما بشيء، وكذا يقع في الهداية ونحوها فاحفظه، ومثله ما يدفعه لزوجته أو غيرها".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(2/ 15):
"(سئل) في رجل تصرف في دار معلومة زمانا تصرف الملاك في أملاكهم من غير معارض له في ذلك ولا في شيء منه ثم باعها من زيد وباعها زيد من عمرو ومضى للتصرف المذكور أكثر من عشرين سنة وللرجل قريب مطلع على التصرف المذكور هو وورثته من بعده ولم يدعوا بشيء من الدار والكل في بلدة واحدة ولم يمنعهم من الدعوى مانع شرعي قام الآن ورثته يريدون الدعوى بشيء من الدار فهل تكون دعواهم بذلك غير مسموعة؟
(الجواب) : نعم لا تسمع دعواهم في ذلك وتترك الدار في يد المتصرف قطعا للأطماع الفاسدة؛ لأن السكوت كالإفصاح قطعا للتزوير والحيل والمسألة في كثير من المعتبرات كالتنوير والكنز والملتقى في مسائل شتى آخر الكتاب والبزازية الولوالجية وعبارتها رجل تصرف زمانا في أرض ورجل آخر رأى الأرض والتصرف ولم يدع ومات على ذلك لم تسمع بعد ذلك دعوى ولده فتترك في يد المتصرف؛ لأن الحال شاهد اهـ لا سيما بعد صدور المنع السلطاني عن سماع الدعوى بعد خمس عشرة سنة والمسألة في فتاوى الأنقروي مفصلة وكذا في الخيرية في كتاب الدعوى في عدة أسئلة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

06/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب