021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دیکھ بھال کے بدلے نصف قیمت کے عوض جانور اجرت پر دینا{نصف قیمت کے بدلے جانور پالنے کے لئے دینا}
70838اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

ایک شخص کسی کو جانوراس شرط پر خرید کر دیتا ہے کہ وہ اس کی دیکھ بھال اور خود رو گھاس وغیرہ کھلائے گا اور جب یہ بڑا ہوکر قربانی وغیرہ کے قابل ہوجائے تو اس کی قیمت میں سےنصف قیمت میں وہ بھی شریک ہوگا ۔کیا یہ صورت جائز ہے؟ جبکہ اس کا تعامل بھی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جانور کو پرورش کے لیے نصف حصے پر دینا شرعا دو وجہ سے جائز نہیں:(۱)اس میں جہالت اجرت  ومدت پائی جاتی ہے۔ (۲) قفیز طحان کی صورت ہے کہ اجرت خود اجیر کے عمل پر موقوف ہے۔ تعامل کی وجہ سے اگرچہ جہالت اجرت  ومدت کا تحمل تو ہوسکتا ہے ،لیکن قفیز طحان کی علت منصوصہ  کے مقابلے میں تعامل مؤثر نہ ہوگا۔لہذا صورت جواز یہ ہوسکتی ہے کہ مالک دیکھ بھال کرنے والے کو بھینس کا نصف حصہ  ہبہ کردےیافروخت کرکے  اس کی قیمت معاف کردےاور دیکھ بھال کرنےوالے سے کہے کہ تم اس کی پرورش کرو اور قیمت اور دودھ وغیرہ نصف،نصف ہوگا اور وہ اس پر راضی ہوجائے تو معاملہ درست ہوسکتا ہے۔(احسن الفتاوی:ج۷،ص۳۰۹وفتاوی عثمانی:ج۳،ص۳۸۲)

بعض اہل علم کےمطابق احتیاط بچنے میں ہی ہے،البتہ جہاں ابتلاء شدیدہو توامام احمد رحمہ اللہ تعالی کی ایک روایت کے مطابق عمل کی گنجائش بھی ہے۔(امدالفتاوی:ج۳،ص۳۴۲)

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4/ 445)
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها۔۔۔۔۔والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 285)
وكذا لو دفع بقرة بالعلف ليكون الحادث نصفين اهـ
وکذا فی خلاصۃ الفتاوی وفتح القدیر والفتاوی التتارخانیۃ، والبحر الرائق وجامع الفصولین۔
المغني لابن قدامة (5/ 328)
فصل: ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها ونسلها وصوفها وشعرها، أو نصفه، أو جميعه، لم يجز. نص عليه أحمد، في رواية جعفر بن محمد النسائي؛ لأن الأجر غير معلوم، ولا يصلح عوضا في البيع. وقال إسماعيل بن سعيد: سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل، على أن يعلفها ويتحفظها، وما ولدت من ولد بينهما. فقال: أكره ذلك
وبه قال أبو أيوب، وأبو خيثمة. ولا أعلم فيه مخالفا؛ وذلك لأن العوض مجهول معدوم، ولا يدرى أيوجد أم لا، والأصل عدمه، ولا يصح أن يكون ثمنا. فإن قيل: فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف ربحها. قلنا: إنما جاز ثم تشبيها بالمضاربة؛ لأنها عين تنمى بالعمل، فجاز اشتراط جزء من النماء، والمساقاة كالمضاربة، وفي مسألتنا لا يمكن ذلك؛ لأن النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها، فلم يمكن إلحاقه بذلك
الشرح الكبير على متن المقنع (6/ 20)
وذكر صاحب المحرر رواية أخرى أنه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده بجزء من كسبه والأول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق،

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۱جمادی الاولی ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب