021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوطلاقوں کے بعد رجوع اورپھر لمبے عرصے تک لاتعلق رہنے کے بعد بیوی کے پاس آنا
70799طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

    میری بیٹی کا نام کنول ہے اوراس کےشوہرکانام محمد نعمان شبیرہے،بارہ سال پہلے ان دونوں کی شادی ہوئی تھی،مگر شادی کے بعد ہمیشہ لڑائی جھگڑا رہا اوراسی میں ان کے تین بچے ہوگئے،انہیں جھگڑوں میں اس نے دوسری شادی کرلی اوردونوں بیویوں کوایک ہی فلیٹ میں رکھا،اس سے آئے دن جھگڑے اوربڑھ گئے ایک دن جھگڑا بہت بڑھ گیا اورنوبت مارپیٹ پربھی آگئی، ہاتھ تووہ گزشتہ بارہ سال سےمستقل طورپراٹھا رہا تھا جبکہ ان کے پاس مالی آسودگی بھی نہیں تھی،ہمیشہ بیٹی کو مارتا،پیٹتا اور ذرا ذرا  سی بات پر گالیاں دیتاتھا، جب اس نے میری بیٹی کو دوسری بیوی کے سامنے مارا تو میری بیٹی کنول نے طلاق کا مطالبہ کردیا،اس پر اس نے ایک طلاق تو اسی وقت دیدی جبکہ دوسری طلاق دوسرے مہینہ میں دی اورپھر وہ غائب ہوگیا،گھر چھوڑکر چلاگیا،دوسال گزرگئے ہیں ،خرچہ اٹھاتے رہے ،دوسال بعداس نے موبائل پربچوں سےرابطہ کیا،بچوں کو ہر ہفتے گھر سے باہر ملنے آتا،معلوم یہ کرناہے کہ دو طلاق کے بعد اس نے رجوع کرلیاتھا لیکن پھر دو سال تک وہ بیوی بچوں سے لاتعلق رہا اب وہ دوبارہ اپنی بیوی بچوں کے پا س آنا چاہتاہے کیاان کا نکاح برقرار ہے یا تیسری طلاق ہوگئی ہے؟ اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 محض زیادہ عرصہ تک بیوی سےلاتعلق رہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا اورنہ ہی اس سے کوئی طلاق ہوتی ہے    لہذامسئولہ صورت میں دوطلاقوں کے بعداگرشوہرنے واقعةً عدت کے اندررجوع کرلیا تھا جیسے کہ سائل نے لکھا ہےاور اس  لاتعلق رہنے کے زمانےمیں اس نےکنول کو اپنے منہ سےیا تحریرسے تیسری طلاق نہیں دی اور نہ ہی زوجین میں کوئی خلع کا معاملہ ہوا ہے توپھرمحمدنعمان شبیر اپنی بیوی  کنول کے پاس واپس آسکتاہے،اوراس کو اپناسکتاہے۔

   واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے،  یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے، ان کے عزت نفس کا خیال رکھے ،بلاوجہ ان کونہ مارے، شرعی حد سے زیادہ نہ مارے اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اشیاء ،تحفہ تحائف  وغیرہ دے  اتنا ہی دوسری بیوی  کو بھی دے ؛ جو شخص اپنی بیویوں  کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدات بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي". (مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔

دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اوروہ  ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له إمرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج". (مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، ط: رشيدية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا". (كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل)ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔

حوالہ جات
وفی الهداية  (ج 1 / ص 254)
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالی:
{فأمسكوهن بمعروف } [ البقرة : 231 ] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمي إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة قال : أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة.
وقال اللہ تعالی:
وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (228) الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ  [البقرة/228، 229]
يقول الأستاذ الدكتور نصر فريد واصل، مفتي مصر الأسبق:
إذا كان الحال كما ورد بالسؤال من أن الحياة بين هذا الزوج وزوجته مستحيلة وغير مُحْتَمَلَة، وأنه بعيد عنها جسديًّا وماديًّا ومعنويًّا، وتزوج من سيدة أخرى، ولم يُنْفق عليها ولا على صغيرها، فنفيد بالآتي :
غياب الزوج عن زوجته لا يُعتبر طلاقًا إذا لم يقم هذا الزوج بطلاقها لفظا أو كتابة أو على يد مأذون، فتكون الزوجية ما زالت قائمة بينهما؛ لأن الزوجية لا تنقطع إلا بالطلاق أو الوفاة، وبناء على ذلك لا يحق لها الزواج بآخر؛ لأنها على عِصْمة الزوج الأول.(سوال وجواب اون لائن https://fatwa.islamonline.net/6897)
قال اللہ تعالی:
 وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (البقرة: 129)
تفسير مدارك الترتيل وحقائق التأويل - (ج 1 / ص 257)
{ وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النساء } ولن تستطيعوا العدل بين النساء والتسوية حتى لا يقع ميل البتة ، فتمام العدل أن يسوى بينهن بالقسمة والنفقة والتعهد والنظر والإقبال والمحالمة والمفاكهة وغيرها . وقيل : معناه أن تعدلوا في المحبة وكان عليه السلام يقسم بين نسائه فيعدل ويقول : " هذه قسمتي فيما أملك فلا تؤاخذني فيما تملك ولا أملك " يعني المحبة لأن عائشة رضي الله عنها كانت أحب إليه .
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ "، النساء/ 19، وقوله سبحانه وتعالى:" وَلَهُنَّ مِثْل الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ "، البقرة/228.
قال الله تعالى:" أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "، الطلاق/6،
عن عمرو بن الأحوص رضي الله عنه، أنّ رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم - قال:" .. ألا وحقهنّ عليكم أن تحسنوا إليهنّ في كسوتهنّ وطعامهنّ "، رواه الترمذي،
وورد في حديث عن جابر رضي الله عنه، أنّ رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم - قال في خطبة حجّة الوداع:" اتَّقوا اللهَ في النِّساءِ فإنَّكم أخَذْتُموهنَّ بأمانِ اللهِ، واستحلَلْتُم فروجَهنَّ بكلمةِ اللهِ، ولكم عليهنَّ ألَّا يُوطِئْنَ فُرشَكم أحدًا تكرَهونَه، فإنْ فعَلْنَ ذلك فاضرِبوهنَّ ضربًا غيرَ مُبرِّحٍ، ولهنَّ عليكم رزقُهنَّ وكسوتُهنَّ بالمعروفِ "، رواه ابن حبّان.
وفی الفتاوی  الہندیہ
"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ ( الباب السابع عشر في النفقات، ١/ ٥٤٤، ط: رشيدية)
وفيه أيضاً:
"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع". (مطلب في الكسوة، ١/ ٥٥٥)
و فيه أيضاً:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها..." الخ ( الفصل الثاني في السكني ١/ ٥٥٦)

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

  7/5/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب