021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن کا میراث میں اپنا حصہ معاف کرنا
70896 اقرار اور صلح کا بیان متفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: والد کی وفات کے بعد تین بھائیوں نے آپس میں وراثت تقسیم کرلی اور اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا۔ایک بھائی نے اپنی طرف سے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بہن کو دے دیا جس کو انہوں نے واپس کردیا۔ پھر دوسرے بھائی کے بیٹوں کو بہن نے کہہ دیا کہ میں نے اپنا حصہ معاف کردیا۔یہ معافی صرف زبانی ہوئی تھی۔اس کے پندرہ یا بیس سال بعد اب بہن اپنا حصہ مانگ رہی ہے۔ ایک بھائی کے بڑے بیٹے نے اپنے حصے کی کچھ زمین الگ کرکے پھوپھی کو دے کر اس پر مالکانہ تصرف دے دیا، جبکہ اس کے دوسرے بیٹے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے یہ زمین کیوں دی۔ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ تیسرے بھائی کے بیٹے کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی پھوپھی کو ان کا حصہ دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن جب ان کو موقع پر بلایا جاتا ہے تو غائب ہوجاتے ہیں۔(گویا کہ حصہ تو مان رہے ہیں لیکن عملاً دے نہیں رہے)۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی وارث کا اپنا حصہ میراث معاف کرکے دوسرے ورثاء کے لیے چھوڑنے سے وہ معاف نہیں ہوتا بلکہ اس کا حصہ برقرار رہتاہے ، الا یہ کہ اس کا حصہ الگ کرکے اسے دیا جائے، پھر وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے اپنا وہ حصہ دوسرے ورثہ کو ہبہ کردے تو جائز ہے۔مذکورہ صورت میں بہن کا اپنا حصہ معاف کرنے سے معاف نہیں ہوا،لہذا ان کا اپنے حصے کا مطالبہ درست ہے۔ بھائیوں یا ان کے ورثاء کے ذمہ لازم ہے کہ وہ مذکورہ بہن کو ان کا حصہ میراث دیں۔ بھائی کے جس بیٹے نے اپنے حصے کی کچھ زمین الگ کرکے اپنی پھوپھی کو دی ہے اور اس پر مالکانہ قبضہ بھی کروادیا ہے تو یہ اس بیٹے کی طرف سے اپنی زمین کا ہبہ ہے۔لہذا اس کے دوسرے بھائیوں کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار (5/ 642)
(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أوعقار بمال أوعن) تركة هي (ذهب بفضةأوصح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف....
وفی قرۃ عين الأخيار لتكملة رد المحتار :
قَوْله: (أخرجت الْوَرَثَة أحدهم) أَي أَو الْمُوصى لَهُ بمبلغ من التَّرِكَة.سائحاني.وَفِي آخر الاشباه عَن الْكتاب: لَو صولح الْمُوصى لَهُ بِالثُّلثِ على السُّدس صَحَّ.اهـ. أَقُول: لكنه مُشكل، لانه من قبيل الاسقاط فِي الاعيان وَهُوَ لَا يجوز، وَقد صَرَّحُوا بِأَن الْوَارِث لَا يسْقط حَقه من التَّرِكَة بالاسقاط وَهَذَا مثله.
سیف اللہ              دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی                            ھ 15/05/1442                                                                    
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب