021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح کے وقت کی شرائط کاحکم نیز”تو میری ماں بہن ہوگی”سے وقوعِ طلاق کا حکم
70786طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

       دو بھائی تھے ،دونوں شادی شدہ تھے،دونوں کے بچے تھے اوردونوں علیحدہ علیحدہ زمین اورمکان میں رہتے تھے ،ان میں سےجب ایک بھائی کا انتقال ہوا تودوسرے بھائی نے اپنی بھابھی سے نکاح کیا ،اورنکاح کے وقت گواہوں کے سامنے بھابھی کی مطالبہ پر یہ شرط طے ہوئی کہ بھابھی اپنے بچوں کے ساتھ اپنے پرانے گھرمیں ہی  رہے گی ،مگرایک سال کے بعد میاں بیوی میں اختلاف ہوا اورجھگڑا ہوا ،میاں نے کہاکہ میں تمہیں خرچہ نہیں دوں گا ،میرے گھر آجاؤ ،اگر نہیں آئی تو میں تمہیں اس گھر میں خرچہ نہیں دوں گا،اگرمیں نے اس گھرمیں تمہیں خرچہ دیا تو "تو میری  ماں بہن ہوگی "اب وہ بھابھی اپنے پرانے گھر سے شوہر کے دوسرے گھرجانانہیں چاہتی ،کیونکہ اس کے ساتھ یہ بات طے ہوئی تھی کہ وہ  اسی گھرمیں اپنے بچوں کے ساتھ رہے گی کیونکہ دوسرے گھرمیں دونوں بیویوں کا نبھاؤ نہیں ہوسکتا،اب پوچھنایہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کوئی طلاق ہوئی یانہیں؟مجھے اس بارے میں فتوی چاہیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

       "تومیری ماں بہن ہوگی"اس  سے کوئی طلاق نہیں ہوتی،لہذا مسئولہ صورت میں خاوند کا اسی گھرمیں بیوی کو خرچہ دینے سے  کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،البتہ بیوی سے ایسے الفاظ کہنا ناپسندیدہ ہے، اس لیے آئندہ اجتناب کی جائے۔

       فاسد شرطوں سے نکاح تو فاسد نہیں ہوتا، تاہم یہ یادرہے کہ نکاح کے وقت طرفین سےجو شرائط رکھی جاتی ہیں اگر وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں تو وعدہ ہونے کی وجہ سے ان کو پورا کرلیناچاہیےاوربلاشرعی عذر اس سے پھرنا نہیں چاہیے، صحیح بخاری میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ"سب سے بڑھ کر پوری کیے جانے کے لائق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے سے تم عصمتیں حلال کرتے ہویعنی نکاح کے وقت کی شرائط ہیں، تاہم اگر شرط قبول کرنے والے کی کوئی مجبوری ہوتو شرط شرط لگانے والے کو شرط پوری کرنے پر اصرار کرنابھی مناسب بات نہیں،میاں بیوی کو ایک دوسرے کی مجبوریوں کا خیارکھنا چاہیے تب ہی یہ رشتہ صحیح طورپر چل سکتاہے اورگھرمیں سکون رہ سکتاہے۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار مع رد المحتار (3 / 470) ط: سعید
'' (وإن نوى بأنت علي مثل أمي ) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه''۔
و في الرد: ''(قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه ''۔ وراجع ایضا (فتاوی رشیدیہ ص: 476 ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام )
وفی صحیح البخاری:
إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ .باب الشروط فی المھر عند عقد النکاح،حدیث:2572وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب الوفاءبالشروط فی النکاح،حدیث:1418وسنن الدارمی:191/2،حدیث:2203)
الدر المختار للحصفكي (ج 3 / ص 58):
 "(ولكن لا يبطل) النكاح (بالشرط الفاسد و) إنما (يبطل الشرط دونه) يعني لو عقد مع شرط فاسد لم يبطل النكاح.
" تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 5 / ص 468):
 "إذا تزوجها على خمر أو خنزير فإن المسمى ليس بمال متقوم في حق المسلم فكان شرط قبوله شرطا فاسدا غير أن النكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة فيصح النكاح ويلغو الشرط ويجب مهر المثل"
 اللباب في شرح الكتاب (ج 1 / ص 258):
 "(وإذا زوج الرجل ابنته) أو أخته (على أن يزوجه الرجل) الآخر (أخته أو ابنته؛ ليكون) أي على أن يكون (أحد العقدين عوضاً عن) العقد (الآخر فالعقدان جائزان)؛ لأن النكاح لا يبطل بالشرط الفاسد، (لكل واحدة منهما مهر مثلها)؛ لفساد التسمية بما لا يصلح صداقا."

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

     دارالافتاء جامعۃ الرشید

        6/5/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب