021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیماری کے متعدی ہونے کے بارے میں مروی احادیث میں تطبیق
70888ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہے ۔ جسے اللہ چاہے اسے بیمار کر دیتے ہیں ۔ جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جہاں کوئی وباء پھیل جائے ( جیسے موجود ہ دور میں کورونا وائرس ) تو نہ وہاں سے بھاگو ، نہ وہاں جاؤ۔ اس کی بظاہر وجہ تو یہی لگتی ہے کہ وباء مزید نہ پھیل جائے ۔ ایک اور حدیث کے مفہوم کے مطابق ( اللہ تعالی کمی بیشی معاف فرمائے ) کوڑھ اور جزام کے مریض کے ساتھ کھانے کی بھی ممانعت ہے ۔ اب ظاہری طور پر ان احادیث میں ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف تو ہمارا ایمان ہے کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بیمار نہیں ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ وباء مزید نہ پھیل جائے ۔ برائے مہربانی یہ اشکال دور فرما دیں۔

ہمارے ہاں چونکہ سلام کے بعد مصافحہ کرنا رواج میں ہے ۔ کرونا وائرس کے خوف سے ڈاکٹر حضرات فرماتے ہیں کہ مصافحہ کرنے سے بھی گریز کریں ۔ ایسی صورت حال میں اگر کوئی مصافحہ کرے اس یقین کی بنیاد پر کہ اللہ کے چاہے بغیر بیماری نہیں پھیلے گی تو ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اسے مصافحہ کرنا چاہیے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات درست ہے کہ بعض احادیث سے بیماری کے متعدی نہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور بعض احادیث میں احتیاط کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جن احادیث میں بیماری کے متعدی نہ ہونے کا ذکر ہے ، اس سے مراد اس باطل نظریے کا رد کرنا ہے کہ کچھ بیماریوں میں متعدی ہونے کی صفت لازمی ہے، چاہے ( العیاذ باللہ ) اللہ تعالی کا حکم نہ ہو ، اور جن روایات میں احتیاط کا حکم دیا گیا ہے ، ان سے مراد ایسی صورت میں احتیاط کی تعلیم دینا ہے کہ کچھ بیماریوں میں اللہ تعالی نے تعدی کی صفت رکھی ہے ۔ ان حالات میں احتیاط کرنا بہتر ہے کہ بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد کمزور ایمان والے اللہ تعالی کی مشیئت کا ہی انکار نہ کر دیں ۔کوڑھ ،  جزام ، طاعون اور حالیہ وبا کورونا میں مبتلا شخص کے ساتھ اختلاط کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ اس بات کا اعتقاد اور یقین رکھنا ضروری ہے کہ بیمار ی میں مبتلا کرنے اور صحت دینے والی ذات اللہ کی ہے ۔ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی بیماری ایک سے دوسرے میں منتقل نہیں ہو سکتی ہے لیکن جن بیماریوں میں باذن اللہ تعدی کی صفت پائی جاتی ہے ، اسباب کے درجے میں ایسے شخص کے ساتھ اختلاط سے پرہیز کرنا عام حالات میں بہتر ہے  البتہ اگر کہیں پر بیماری لگنے کا غالب گمان ہو گا تو پرہیز لازمی ہو گا ۔

عام حالات میں مصافحہ کرنا مسنون و مستحب ہے ۔ اگر ڈاکٹرز کی رائے میں ہاتھ ملانے ، گلے ملنے اور لوگوں کے اجتماع سے بیماری ( کورونا وائرس ) کے پھیلنے کا اندیشہ ہے تو ان سب کاموں سے اجتناب کرنا بہتر ہے، البتہ اگر کوئی ہاتھ ملا لیتا ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا ۔

حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 55)
3911 - حدثنا محمد بن المتوكل العسقلاني والحسن بن علي، قالا: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمةعن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا عدوى، ولا صفر، ولا هامة" فقال أعرابي: ما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء فيخالطها البعير الأجرب فيجربها؟ قال: "فمن أعدى الأول؟ " (1). 
مسند أحمد مخرجا (15/ 449)
9722 - حدثنا وكيع، قال: حدثنا النهاس، عن شيخ بمكة، عن أبي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «فر من المجذوم فرارك من الأسد»
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 56)
وقد اختلف العلماء في التأويل، فمنهم من يقول: المراد منه نفي ذلك وإبطاله على ما يدل عليه ظاهر الحديث والقرائن المنسوقة على العدوى وهم الأكثرون.
ومنهم من يرى أنه لم يرد إبطالها، فقد قال -صلى الله عليه وسلم-: "وفر من المجذوم فرارك من الأسد" وقال: "لا يوردن ذو عاهة على مصح" وإنما أراد بذلك نفي ما كان يعتقده أصحاب الطبيعة، فإنهم كانوا يرون "العلل" المعدية مؤثرة لا محالة، فأعلمهم بقوله هذا: أن ليس الأمر على ما يتوهمون، بل هو متعلق بالمشيئة إن شاء كان وإن لم يشأ لم يكن، ويشير إلى هذا المعنى قوله: "فمن أعدى الأول" أي: إن كنتم ترون أن السبب في ذلك العدوى لا غير، فمن أعدى الأول، وبين بقوله: "وفر من المجذوم" وبقوله: "لا يوردن ذو عاهة على مصح" أن مداناة ذلك بسبب العلة فليتقه اتقاءه من الجدار المائل والسفينة المعيوبة ... واختار هذا التأويل وقال: هو أولى لما فيه من التوفيق بين الأحاديث الواردة فيه، ثم لأن القول الأول يفضي إلى تعطيل الأصول الطبية، ولم يرد الشرع بتعطيلها، بل ورد بإثباتها والعبرة بها على الوجه الذي ذكرناه.
وقال البيهقي في "معرفة السنن والآثار"10/ 189 - 190: ثابت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: "لا عدوى" وإنما أراد به على الوجه الذي كانوا يعتقدون في الجاهلية من إضافة الفعل إلى غير الله عز وجل، وقد يجعل الله تعالى بمشيئته مخالطة الصحيح من به شيء من هذه العيوب سببا لحدوث ذلك به، ولهذا قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "لا يورد ممرض على مصح" وقال في الطاعون: "من سمع به في أرض فلا يقدمن عليه" وغير ذلك مما في معناه، وذلك ذلك بتقدير الله عز وجل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 381)
(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة لأنها سنة قديمة متواترة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من صافح أخاه المسلم وحرك يده تناثرت ذنوبه» وإطلاق المصنف تبعا للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقا ولو بعد العصر

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

16.05.1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب