021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ مکان میں شرکاء کا حصہ
70924میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک مکان جو کہ تقریبا چالیس سال قبل بھائی عبدالرشید ( مرحوم ) نے اپنے بھائی بشیر اور باپ محمد سلیمان ( مرحوم ) کے مشترکہ مال کے عوض 9000 روپے میں خریدا ۔ مکان ایک کمرہ اور صحن پر مشتمل تھا ۔ مکان کی رجسٹریشن والد صاحب کے نام پر کرا دی ۔ پھر بعد میں تینوں کے مشترکہ مال سے ہی دوسری منزل تعمیر کی گئی ۔ اس کے بعد بھائی بشیر احمد نے ذاتی طور پر ایک ہوٹل خریدا اور بلا کسی عوض بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے  اپنے بھائی عبدالرشید کو اپنا کاروباری شریک بنا لیا ۔ہوٹل کی آمدن سے بھائی عبدالرشید نے 5 لاکھ کی لاٹری ڈالی جس سے انہوں نے ایک الگ مکان 260000  کا خریدا اور بقیہ رقم بھی اپنے استعمال میں خرچ کی ۔ کچھ عرصے بعد بھائی بشیر احمد کی شادی کی گئی اور بھائی عبدالرشید اور والد محمد سلیمان نے بھائی بشیر کی اہلیہ کے حق مہر انہیں دو منزلہ مکان لکھ کر دے دیا جو کہ پہلے خریدا گیا تھا اور بھائی عبدالرشید نے بھائی بشیر احمد سے کہا کہ یہ مکان جو ہم نے آپ کی بیوی کے حق مہر میں لکھ دیا ہے یہ آپ کا ہوا اور جو مکان بعد میں خریدا گیا ہے وہ میرا ہوا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بھائی عبدالرشید نے ہوٹل کا سب سامان اور ایڈوانس کے 50000 ہزار روپے اور اپنا دوسرے نمبر پر لیا ہوا گھر سب بیچ کھایا اور کسی بھائی ، والد اور والدہ کو کچھ نہ دیا ۔ اب مسئلہ یہ ہے بھائی عبدالرشید کا اپنے والد سے 9 برس قبل ہی 2010 میں انتقال ہو گیا اور والد سلیمان کا انتقال 2019 میں ہوا ۔ بھائی عبدالرشید کی بیگم اور بچے اب ہم سے اس مکان میں حصے کے طلبگار ہیں ۔ محمد سلیمان کی دیگر اولاد بھی ہے جن میں سے ایک بیٹا خورشید اور پانچ بیٹیاں ہیں ۔ کیا ان کا بھی اس مکان میں کوئی حصہ بنتا ہے ؟ نیز یہ مکان محمد سلیمان ( مرحوم ) نےاپنے بیٹے بشیر کو اپنی وفات سے 6 سال قبل عدالت کے ذریعے ہدیہ کر دیا تھا  جو کہ بھائی بشیر کی اہلیہ کے حق مہر میں لکھا ہوا ہے ۔

تنقیح:

سائل نے فون پر بتایا کہ جب پہلے مکان کی رجسٹریشن والد ( سلیمان ) کے نام پر کروائی تو والد صاحب کو ہبہ کرنا مقصد نہ تھا ، فقط رجسٹریشن ان کے نام پر کروانی تھی ۔ہوٹل سے حاصل ہونے والا نفع دونوں بھائی برابر تقسیم کرتے تھے  ۔ ہوٹل کی مشترکہ آمدن سے ہی لاٹری ڈالی گئی ۔ لاٹری کے پیسوں سے جب دوسرا مکان خریدا گیا تو بھائی عبدالرشید اس دوسرے مکان میں منتقل ہو گئے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئلے کے جواب سے پہلے کچھ باتوں کا جان لینا ضروری ہے :

  1. مورث کے مال میں وراثت کا حق صرف ان ورثاء کا ہوتا ہے جو مورث کی موت کے وقت زندہ ہوں جیسے اس مسئلے میں والد سلیمان ( مرحوم ) سے قبل کسی بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے تو اسے وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا ۔
  2. ہبہ ( گفٹ ) کے تام ہونے کے لیے قبضہ کرنا ضروری ہے ۔ اس مسئلے میں جب والد سلیمان اور بھائی عبدالرشیدنے مشترکہ خریدےگئے مکان میں سے اپنا حصہ بھائی بشیر کو ہبہ ( گفٹ ) کیا تو بھائی بشیر پہلے سے اس مکان میں رہائش پذیر تھے ۔

 صورت مسئولہ میں مکان کے مالک بھائی بشیر ہیں ، بھائی عبدالرشید ( مرحوم ) کے ورثاء اور محمد سلیمان ( مرحوم ) کی باقی اولاد کا کوئی حصہ نہیں، کیونکہ اس مکان میں اپنا حصہ بھائی عبدالرشید اور محمد سلیمان ( مرحوم ) بھائی بشیرکواپنی زندگی میں ہبہ ( گفٹ ) کر چکے ہیں ۔ہبہ اگر قابل تقسیم چیز کا ہو تو یہ ضروری ہے کہ اس کو تقسیم کر کے قبضہ کروایا جائے ۔اس صورت میں جب بھائی عبدالرشید اور والد سلیمان نے مکان میں سے اپنا حصہ بھائی بشیر کو ہبہ کر دیا  جبکہ بھائی بشیر پہلے سے اس مکان میں رہائش پذیر تھے تو گویا بھائی بشیر کا قبضہ پایا گیا ۔ اس مکان کے علاوہ اگروالد سلیمان نے کوئی  ترکہ چھوڑا ہے تو وہ بھائی بشیر ، خورشید اور پانچ بیٹیوں کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (18/ 34)
 وجه قوله الآخر أن حياة الوارث عند موت المورث شرط ليتحقق له صفة الوراثة
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 692)
وفي الجوهرة، وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له ثم يسلمه الدار مثلا فتصح لشغلها بمتاع في يده (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه ، وهو المختار

عبدالدیان اعوان

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب