021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
محصرقضائے عمرہ کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کیا حکم ہو گا؟
69352حج کے احکام ومسائلعمرہ کے مسائل

سوال

اگر دوبارہ قضائےعمرہ کی استطاعت نہ ہوتوکیاحکم ہے؟بعض معتمرین کواہلِ خیر حضرات تبرعابھیجتے ہیں،ذاتی طور پر استطاعت نہیں رکھتے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسے حضرات جن پر محصر (جواحرام باندھنے کے بعد  کسی عذر کی وجہ سے عمرہ اور حج نہ کر سکتے ہوں) ہونے کی وجہ

سے عمرہ کی قضاء لازم ہو چکی ہے اور وہ مالی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے عمرہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اوّلاً انتظار کریں، شاید زندگی میں کسی وقت اللہ تعالیٰ مالی وسعت دیدیں تو عمرہ کی قضاء کر لیں، اگر بالفرض زندگی میں مالی اعتبار سے استطاعت حاصل نہ ہو تو وفات سے قبل وصیت کر دیں کہ ان کے ترکہ سے عمرہ کی قضاء کروائی جائے۔یہ بات یاد رہے کہ یہ وصیت کل ترکہ کے تہائی مال میں نافذ ہو گی، تہائی سے زائد مال وصیت میں خرچ کرنا ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہو گا، اگر وہ راضی ہوں تو بقیہ مال کو شامل کرکے عمرہ کروا دیا جائے گا، نیز اگر تہائی مال سے اپنے وطن سے عمرہ کروانے کا خرچہ پورا نہ ہوتا ہو تو جہاں سے عمرہ کا خرچ پورا ہو سکتا ہو وہاں سے کروا دیا جائے، یعنی اگر جدہ سے عمرہ ہو سکتا ہو تو وہاں سے، ورنہ مکہ مکرمہ سے ہی کسی شخص کو رقم دے کر عمرہ کروا دیا جائے۔

نیز جن مخیّر حضرات نے  اس مرتبہ ان لوگوں کو عمرہ کے لیے بھیجا ہے ان کو چاہیے کہ حکومت کی طرف سے واپس کی گئی رقم اپنے پاس روک لیں اور پھر پابندی ختم ہونے پر دوبارہ انہی لوگوں کو عمرہ کی قضاء کے لیے بھیج دیں تو ان لوگوں کے عمرہ کی قضاء بھی ہوجائے گی  اور بھیجنے والوں كو پورا ثواب مل جائے گا۔

حوالہ جات
عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 71) أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) مطبعة أسعد، بَغْدَاد:
وقَالَ مُحَمَّدٌ: في رجل أوصى بأن يحج عنه ولم يبلغ ما أوصى أن يحج عنه إلا ماشياً فقَالَ: رجل أنا أحج عنه ماشياً من هاهنا، قَالَ: لا يجزيهم ولكن يحج عنه من حيث يبلغ راكباً.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (2/ 72) دار الفكر-بيروت:
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله)۔
قال ابن عابدين: (قوله وإنما يعطی من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة. وفي القنية: أوصى بثلث ماله إلى صلوات عمره وعليه دين فأجاز الغريم وصيته لا تجوز لأن الوصية متأخرة عن الدين ولم يسقط الدين بإجازته.اهـ. وفيها أوصى بصلوات عمره وعمره لا يدرى فالوصية باطلة، ثم رمز إن كان الثلث لا يفي بالصلوات جاز۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

21/رجب المرجب 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب