021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جسم کے کسی حصہ پر ٹیٹو بنانےاوراس کے ساتھ نماز پڑھنے کاحکم
70966جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ

         ایک جاننے والاہے اسکے والد صاحب کے بائیں ہاتھ پر ٹیٹو بنا ہوا ہے  جو انگریز لوگ بنواتے ہیں کیا اس صورت میں ان کی نماز ادا ہو جائے گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

        جسم کے کسی حصہ پر ٹیٹو بنوانا شرعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور ٹیٹو بنانے اور بنوانے والوں پر اللہ رب العزت کی جانب سے لعنت کی گئی ہے، جیساکہ صحیح البخاری میں ہے:

حوالہ جات
عن ابن عمر -رضي الله عنه- عن النبي صلّى الله عليه وسلّم، حيث قال: لعَنَ اللَّهُ الواصلةَ والمُستوصِلةَ، والواشمةَ والمُستوشِمة". ( رواه البخاري، عن عبد الله بن عمر، الرقم: 5937)
"المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج"میں ہے:
" الوشم وهي أن تغرز إبرة أو مسلة أو نحوهما في ظهر الکف أو المعصم أو الشفة أو غیر ذلک من بدن المرأة حتی یسیل الدم، ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورة فیخضر ... فإن طلبت فعل ذلک بها فهي مستوشمة، وهو حرام علی الفاعلة والمفعول بها باختیارها والطالبة له ... وسواء في هذا کله الرجل والمرأة . والله أعلم". (۷/۲۳۱ ، کتاب اللباس والزینة ، باب تحریم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة ، تحت الرقم :۲۱۲۵ )
لہذا جسم پر ٹیٹو بنانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، اور اگر کسی نے جسم پر ٹیٹو بنوا رکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرے، اور اگر اسے زائل کرنا ممکن ہو تو  بذریعہ علاج جسم سے اسے ختم کروائے، جیساکہ "فتح الباری شرح صحیح البخاری" میں ہے
:"إلا بالجرح فإن خاف منه التلف، أو فوات عضو، أو منفعة عضو، أو حدوث شين فاحش في عضو ظاهر، لم تجب إزالته وتكفي التوبة في هذه الحالة، وإن لم يخف شيئاً من ذلك ونحوه لزمه إزالته ويعصي بتأخيره، وسواء في ذلك كله الرجل والمرأة". ( ١٠/ ٣٧٢)
"يستفاد مما مرّ حكم الوشم في نحو اليد، وهو أنه كالاختضاب أو الصبغ المتنجس؛ لأنه إذا غرزت اليد أو الشفة مثلاً بإبرة، ثمّ حشي محلها بكحل أو نيلة ليخضر، تنجس الكحل بالدم، فإذا جمد الدم، والتأم الجرح بقي محله أخضر، فإذا غسل طهر؛ لأنه أثر يشق زواله؛ لأنه لايزول إلا بسلخ الجلد أو جرحه، فإذا كان لايكلف بإزالة الأثر الذي يزول بماء حار أو صابون فعدم التكليف هنا أولى. وقد صرح به في القنية فقال: ولو اتخذ في يده وشماً لايلزمه السلخ ..." الخ (ردالمحتار على الدر المختار، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، مطلب في حكم الوشم، (1/330) ط: سعيد)
     رہی بات نماز کی تو ٹیٹو کے ساتھ نماز ہوجاتی ہے ، البتہ جان دار کی شکل ہونے کی صورت میں کراہت کے ساتھ ادا ہوگی۔

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

       20/5/1442ھ               

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب