021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورت کا برطانیہ کے مجلس شرعی سے فسخ نکاح کی ڈگری لینے کےبعدشوہر کا اس کے خلاف ایک دارالافتاء سے لیے گئے فتوےحکم
71053طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

میرا نام امِ ہانی ہے،اورمیں برطانیہ میں رہتی ہوں میں نے اپنے شوہرسےکچھ حقیقی حقائق اورحالات کی بنیاد پر وہاں کی مجلس سے فسخِ نکاح کی ڈگری لی تھی، اس کے خلاف میرے شوہرنے منسلکہ فتوی جس کا نمبر 13626ہے ایک دارالافتاء سے غلط بیانی کرکے لیا،میرے شوہرنے متعلقہ دارالافتاء کو بھیجے گئے اس سوال میں وہ تمام حقائق اور مسائل مفتی کونہیں لکھےجن کی بنیاد پر بیوی یعنی میں نےمجلس سے فسخِ نکاح کی ڈگری لی تھی، انہوں نےاستفتاء میں کہیں بھی یہ وضاحت نہیں کی کہ بیوی یعنی میں نے کب، کیسے اور کن حالات میں خلع لی، اور اس خلع لینے کی وجوہات کیا تھیں؟ خلع کا یہ میرا کیس شرعی کونسل میں 6 ماہ تک چلتا رہاجس کی مکمل تفصیل شرعی کونسل نے اپنے فیصلے میں لکھی ہے جس کا اردوترجمہ میں نےاس استفتاء کے ساتھ اٹیچ کیا ہے،اوراصل بھی آپ کو بذریعہ ایمیل بھیجی ہےجو انگلش میں ہے ۔

اب مجھے پوچھنایہ ہےکہ

کیا شرعی کونسل"دوزبری" برطانیہ کےلیے ان حقیقی حقائق،حالات اور وجوہات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میرا نکاح فسخ کرنا درست تھایانہیں؟ پلیز مجھے اسکا جواب دیدیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں شوہرنے متعلقہ دارالافتاء سے فتوی لینے کےلیے جو سوال لکھا ہے اس میں شرعی کونسل کے مذکورہ فیصلے کا کوئی ذکرنہیں کیا، بس صرف یہ لکھاہے کہ میری اہلیہ نے مجھ سے خلع لینے کی کوشش کی جس پرمیں راضی نہ ہوا اوروہ اب والدین کے گھر میں ہے، کیاوہ اس حالت میں دوسری شادی کرسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس مجمل اورخلافِ واقع سوال کا وہی جواب ہے کہ جو متعلقہ دارالافتاء نے دیاکہ سائل کا اپنی بیوی سے نکاح بدستور قائم ہےاور سائل کی بیوی طلاق یا خلع لیے بغیر دوسری جگہ قطعا نکاح نہیں کرسکتی الخ....ظاہر ہے کہ سوال جیسا ہوگا،جواب اسی کے مطابق آئے گا اس لیے مذکورہ دارالافتاء نے مذکورہ بالا جواب دیا، چونکہ سائلہ نےاپنا  پورا کیس تفصیل کے ساتھ ہمارے پاس بھیجاہے اورساتھ کونسل کے فیصلے کی کاپی اوراردو ترجمہ بھی بھیجاہے جس کے مکمل مطالعہ سے ہم اس نتیجےپرپہنچے ہیں کہ سائلہ نے مذکورہ کونسل کو جوحقائق لکھے اورجن کی بنیاد پر کونسل نےتحقیق کرکے فسخِ نکاح کی ڈکری جاری کی اگر وہ درست ہوں اورکونسل کے سامنے عورت نے فسخِ نکاح کی وجہ ﴿نان ونفقہ نہ دینا وغیرہ﴾ گواہوں سے ثابت کیا ہو تو کونسل کی طرف سے کیا گیا فیصلہ بشرطیکہ اس میں کوئی اورشرعی خرابی نہ ہوشرعی نقطہ نظرسے درست ہے اورمذکورہ خاتون شوہر کی نکاح سے نکل چکی ہے، لہذا عدت کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
وفی الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني ج۵ ص۲۲۵ 
ومثل المفقود من علم موضعه وشكت زوجته من عدم النفقة يرسل إليه القاضي : وإما أن تحضر أو ترسل النفقة أو تطلقها ، وإلا طلقها الحاكم ، بل لو كان حاضرا وعدمت النفقة قال خليل : ولها الفسخ إن عجز عن نفقة حاضرة لا ماضية ، ثم بعد الطلاق تعتد عدة طلاق بثلاثة أقراء للحرة وقرأين للأمة فيمن تحيض ، وإلا فثلاثة أشهر للحرة والزوجة الأمة لاستوائهما في الأشهر
وفی "الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة "ص:(١۵۹)
جن بلاد میں قاضی شرعی موجود نہیں ......توپھر مذہب مالکیہ کے موافق دیندارمسلمانوں کی ایک جماعت پنچائیت کرکے حسبِ بیان مذکورتحقیقِ کامل کے بعد شرعی فیصلہ صادر کردے تویہ فیصلہ بھی قضائے قاضی کے حکم میں ہوجائے گا لیکن پنجائیت کا ان شرائط کے موافق ہوناضروری ہے جو مقدمہ میں گذرچکی ہیں۔
وفیھا ایضا ص:(١۴۸)
اس جماعت کے قاضی کے قائم مقام ہونے کےلیے چند شرائط ہیں ،جس جماعت میں یہ شرطیں موجودنہ ہون تو وہ شرعا معتبرنہیں ١۔ کم ازکم تین آدمیوں کی جماعت ہو....2اس جماعت کے سب ارکان کا عاد ل ہونا شرط ہے....۳۔فیصلے  میں علماء کی شرکت لازم اورشرط ہے....۴۔چھوتی شرط یہ ہے کہ جماعت المسلمین کے سب ارکان متفقہ فیصلہ دیں الخ
وفیھا ایضا ص:(١۴۸)
مذہب امام مالک کے موافق جس کا اختیارکرنابضرورتِ شدیدہ حنفیہ کے نزدیک بھی جائز ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کا حکم بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجائیگااوراس کی صورت یہ ہے کہ محلہ یا بستی کے دیندار اوربا اثرمسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے جن کا عدد کم از کم تین ہواپنا معاملہ پیش کیاجائے اوروہ جماعت واقعہ کی تحقیق کرکے شریعت کے موافق حکم کردے۔

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعة الرشید

       22/5/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب