021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لاثانی گروپ آف کمپنیز کے مضاربہ پروجیکٹ کا حکم
70978مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

مفتیان کرام اس کمپنی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

 لاثانی گروپ آف کمپنیز کے نام سے ایک کمپنی ہے جس نے "لاثانی آئل ٹریڈرز" کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے مطابق کمپنی اپنے کسٹمر سے کم از کم 350000 روپے لیتی ہے اور اس سے تیل کا کاروبار شروع کرتی ہے۔ کسٹمر کے ساتھ ایک سال کا معاہدہ ہوتا ہے۔ منافع اس طرح طے ہوتے ہیں کہ کسٹمر نے جتنے پیسے انوسٹ کیے ہیں اس کے حساب سے موجودہ ریٹ کے مطابق تیل کے جتنے لیٹر بنتے ہیں اس پر فی لیٹر 50 پیسے روزانہ کسٹمر کو ملیں گے۔ مثلاً موجودہ ریٹ 104 روپے فی لیٹر ہے تو اس کے مطابق 350000 کے 3365 لیٹر بنتے ہیں۔ فی لیٹر 50 پیسے کے حساب سے 3365 لیٹرز کے 1683 روپے بنتے ہیں۔ یعنی 1683 روپے روزانہ کسٹمر کو ملیں گے۔ مہینے میں چار دن چھٹیوں کے اگر نکالے جائیں تو 26 دنوں کے  ماہانہ 43745 روپے بنتے ہیں۔ ایک سال بعد معاہدہ ختم ہوجاتا ہے اور کسٹمر کو 350000 روپے واپس ملتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لاثانی گروپ آف کمپنیز کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ حکومتی ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان(SECP) کے مطابق یہ کمپنی فراڈ اور جعل سازی پر مبنی ہے جو عوام کو غیر معمولی منافع کا لالچ دے کر سرمایہ کاری کے نام پر ان سے ڈیپازٹس جمع کرتی ہے۔SECPکی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق لاثانی گروپ آف کمپنیز کی تمام سرگرمیاں غیرقانونی اور ممنوع ہیں۔اس کو عوام سے ڈیپازٹس جمع کرنے کا لائسنس بھی جاری نہیں کیا گیا ہے،جب کہ کسی بھی کمپنی کو سرمایہ کاری کرنے کے لیے SECP کی طرف سے لائسنس ملنا قانوناً ضروری ہے۔چونکہ حکومت کی جانب سےاس کی سرگرمیوں کوغیر قانونی قرار دیا گیا ہے،اس لیے اس کمپنی کےساتھ دونوں پروجیکٹس(چکس ا ینڈ چکن اور آئل ٹریڈرز) کا کاروبار کرنا اور اس میں سرمایہ کاری کرنا قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور قانون کی خلاف ورزی شرعاً  بھی ممنوع ہے۔ تاہم اگر کمپنی کو قانونی اجازت مل جائےتو شرعی حوالے سےاس کا حکم یہ ہے کہ کمپنی کا مذکورہ پروجیکٹ عقد مضاربہ پر مبنی ہے۔ مضاربہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ طرفین میں سے کسی ایک کے لیے نفع کی کوئی مقدار فکس نہ ہو، بلکہ فیصد کے مطابق نفع طے ہو۔اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ کاروبار میں صرف اتنا نفع ہو جو کسٹمر کے لیے طے کی گئی ہے یا اس سے بھی کم ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نفع کے بجائے نقصان ہو۔  مذکورہ معاملے میں چونکہ کسٹمر کو فی لیٹر کے حساب سے  نفع کی متعین مقدار بہر حال  دی جاتی ہے ،یعنی روزانہ 50 پیسے فی لیٹر ،چاہے اتنا تیل بکے یا نہ بکے اور  چاہے کاروبار میں نفع ہو یا نقصان، اس لیے یہ معاملہ فاسد اور ناجائز ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (5/ 648)
 (وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 85)
(ومنها) أن يكون المشروط لكل واحد منهما من المضارب ورب المال من الربح جزءا شائعا، نصفا أو ثلثا أو ربعا، فإن شرطا عددا مقدرا بأن شرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز، والمضاربة فاسدة؛ لأن المضاربة نوع من الشركة، وهي الشركة في الربح، وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح؛ لجواز أن لا يربح المضارب إلا هذا القدر المذكور، فيكون ذلك لأحدهما دون الآخر، فلا تتحقق الشركة، فلا يكون التصرف مضاربة
الفتاوى الهندية (32/ 448)
( ومنها ) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط .فإن قال على أن لك من الربح مائة درهم أو شرط مع النصف أو الثلث عشرة دراهم لا تصح المضاربة كذا في محيط السرخسي .

سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

                     ھ 25/05/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب