021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لاثانی گروپ آف کمپنیز کے اجارہ پروجیکٹ کا حکم
70977اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

مفتیان کرام اس کمپنی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ ایک کمپنی ہے جو کہ " لاثانی گروپ آف کمپنیز" کے نام سے موسوم ہے۔اس کمپنی کا ایک پروجیکٹ "Lassani chicks & chicken" کے نام سے ہے۔ اس پروجیکٹ میں کمپنی اپنے کسٹمر کے ساتھ 16 ماہ کا معاہدہ کرتی ہے۔کمپنی اپنے کسٹمر کو 5000 چوزے دیتی ہے اور بطور سیکیورٹی اس سے 350000 روپے لیتی ہے۔ معاہدے میں یہ طے ہوتا ہے کہ کسٹمر/ فارمر چوزوں کی دیکھ بھال کرےگا، جس میں چوزوں کاخوراک، میڈیسن، ڈاکٹر ، ٹرانسپورٹ اور خریدوفروخت کی ذمہ داری کمپنی کی ہوگی جب کہ چوزوں کے لیے مناسب جگہ، دیکھ بھال اور پانی و بجلی کی ذمہ داری فارمر کی ہوگی۔فارمر کے دیکھ بھال کی صورت میں فی چوزہ 25 روپے ملیں گے۔ اس لحاظ سے 5000 چوزوں کے 125000 روپے فارمر کو ملیں گے۔

اگر فارمر کی غلطی سے چوزے مرے( چھت گری، چوری ہوگئی یا بارش کا پانی چلاگیا وغیرہ) تو 300 چوزے تک اس سے کوئی مطالبہ نہیں ہوگا(یعنی 300 چوزوں کی اجرت ملے گی) جب کہ اس سے زیادہ جتنے چوزے مرے اس کی اجرت ادا نہیں کی جائے گی۔ اگر فارمر کی غلطی سے نہیں مرے بلکہ کسی وباء یا بیماری کی وجہ سے مرے تو کوئی کٹوتی نہیں ہوگی بلکہ پورے پیسے ادا کیے جائیں گے۔

کمپنی فارمر کو 12 فلاکس دیتے ہیں، ہر فلاکس ایک مہینے یا 40 دن تک فارمر کے ساتھ ہوتا ہے۔ 16 ماہ بعد شروع میں سیکیورٹی کے طور پر ادا کیے گئے 350000 روپے واپس دیے جائیں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لاثانی گروپ آف کمپنیز کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ حکومتی ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان(SECP) کے مطابق یہ کمپنی فراڈ اور جعل سازی پر مبنی ہے جو عوام کو غیر معمولی منافع کا لالچ دے کر سرمایہ کاری کے نام پر ان سے ڈیپازٹس جمع کرتی ہے۔SECPکی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق لاثانی گروپ آف کمپنیز کی تمام سرگرمیاں غیرقانونی اور ممنوع ہیں۔اس کو عوام سے ڈیپازٹس جمع کرنے کا لائسنس بھی جاری نہیں کیا گیا ہے،جب کہ کسی بھی کمپنی کو سرمایہ کاری کرنے کے لیے SECP کی طرف سے لائسنس ملنا قانوناً ضروری ہے۔چونکہ حکومت کی جانب سےاس کی سرگرمیوں کوغیر قانونی قرار دیا گیا ہے،اس لیے اس کمپنی کےساتھ دونوں پروجیکٹس(چکس ا ینڈ چکن اور آئل ٹریڈرز) کا کاروبار کرنا اور اس میں سرمایہ کاری کرنا قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور قانون کی خلاف ورزی شرعاً  بھی ممنوع ہے۔ تاہم اگر کمپنی کو قانونی اجازت مل جائےتو سوال میں کمپنی کےچکس اینڈ چکن کے کاروبار کا جو طریقہ کار مذکور ہےوہ درج ذیل تفصیل کے مطابق درست ہے:

 مذکورہ پروجیکٹ بنیادی طور پر عقد اجارہ پر مبنی ہے، جس میں کمپنی مستاجر (خدمات لینے والا) اور کسٹمر/فارمر اجیر (خدمات فراہم کرنے والا) ہے۔کمپنی فارمر کو اجرت دے کر اس سے چوزوں کے دیکھ بھال کی خدمات لیتی ہے۔

مذکورہ مسئلے میں فارمر اجیر مشترک(Common Employee)بنتاہے اور اجیر مشترک کا حکم یہ ہے کہ جو چیز اس کے حوالے کی جاتی ہے اگر وہ اس کے پاس ہلاک ہوجائے تو وہ اس کا ضامن ہوتا ہے،یعنی وہ اسی طرح کی چیز یا اس کی بازاری قیمت مالک کو دینے کا پابند ہوتاہے۔ ضمان کی وصولی کے لیے ضمان کے بقدر اس کی اجرت میں کٹوتی بھی جائز ہے۔ البتہ اگر وہ ہلاکت ایسے سبب سے ہو جس سے بچنا ناممکن ہو مثلاً ڈاکؤوں نے زبردستی اس سے وہ چیز چھین لی یا ایسی آگ لگ گئی جس کو بجھانا اس کے بس میں نہ ہو تو اس صورت میں وہ ضامن نہیں ہوتا اور  پوری اجرت کا مستحق ہوتاہے۔ جب اجیر مشترک ضامن ہوا تو اس سے رہن(سیکیورٹی) بھی لی جاسکتی ہے۔

 اس تفصیل کی روشنی میں اس طرح اجیر سے سیکیورٹی لیکر معاملہ کرنا جائز ہے مگر یہ ضروری ہے کہ سیکیورٹی کو اپنے استعمال میں نہ لایا جائے، اس لیے کہ سیکیورٹی کو اپنے استعمال میں لانا اور اس سے نفع اٹھانا شرعاً جائز نہیں۔لہذا اگر مسئولہ صورت میں لاثانی گروپ سیکیورٹی کی رقم کو کہیں انویسٹ کرتاہے یا خود استعمال کرتاہے تو پھر یہ رقم قرض ہے،اور اجارے کے معاملے کے ساتھ قرض کی شرط کی وجہ سے یہ معاملہ شرعاً ناجائز ہے۔  

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 114)
 (المادة 610) الأجير الخاص أمين. فلا يضمن المال الهالك بيده بغير صنعه وكذلك لا يضمن المال الهالك بعمله بلا تعد.
(المادة 611) الأجير المشترك يضمن الضرر والخسائر التي تولدت عن فعله ووصفه إن كان بتعديه وتقصيره أو لم يكن.
(المادة 710) يشترط أن يكون مقابل الرهن مالا مضمونا فيجوز أخذ الرهن لأجل المال المغصوب ولا يصح أخذ الرهن لأجل مال هو أمانة.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 264)
(والأجراء على ضربين: أجير مشترك وأجير خاص، فالمشترك كل من لا يستحق الأجرة حتى يعمل كالقصار والصباغ) ؛ لأن المشترك من يعمل للمستأجر ولغيره فلا يكون مختصا بعمله وكذلك الخياط والصباغ.( والمتاع أمانة في يده إن هلك لم يضمن شيئا عند أبي حنيفة وزفر.وقال أبو يوسف ومحمد هو مضمون) عليه بالقبض فيضمنه إذا تلف في يده إلا أن يكون تلفه من شيء غالب لا يستطاع الامتناع منه كالحريق الغالب - وهو أن يأخذ بجميع حوانيت البيت -، والعدو المكابر وهو أن يكون مع المنعة وموت الشاة.
 (والأجير الخاص هو الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل كمن استأجر رجلا شهرا للخدمة، أو لرعي الغنم) وإنما سمي خاصا؛ لأنه يختص بعمله دون غيره؛ لأنه لا يصح أن يعمل لغيره في المدة.(ولا ضمان على الأجير الخاص فيما تلف في يده) بأن سرق منه، أو غصب.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 133)
قال الكرخي في مختصره فإذا سلم إليه ما استوجب عليه وقبضه فهو أمانة في يده عند أبي حنيفة وزفر والحسن بن زياد وهو قول حماد بن أبي سليمان، وقال أبو يوسف ومحمد هو مض مون عليه بالقبض إن هلك في يده أو تلف بوجه من الوجوه ضمنه إلا أن يكون شيء من غالب لا يتحفظ من مثله مثل حريق غالب أو عدو مكابر أو سارق كذلك, وبقولهما يفتى اليوم لتغير أحوال الناس وبه تحصل صيانة أموالهم
مجمع الضمانات (ص: 28)
الراعي قد يكون أجير وحد بأن استأجره شهرا ليرعى غنمه بدرهم أو استأجره ليرعى غنمه بدرهم شهرا وشرط عليه أن لا يرعى غنم غيره وقد يكون أجيرا مشتركا بأن استأجره ليرعى غنمه بدرهم شهرا ولا يشترط أن لا يرعى غنم غيره.
مجمع الضمانات (ص: 29)
وما بيع منها أو هلك سقط من أجره بحسابه.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 66)
قال في التبيين: ثم صاحب الثوب إن شاء ضمنه غير معمول ولم يعطه الأجر، وإن شاء ضمنه معمولا وأعطاه الأجر ط ملخصا.

      سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏                ھ 25/05/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب