70993 | پانی کی باری سے متعلق مسائل | نہروں اور کاریز کے مسائل |
سوال
: ہم حیدرآباد سے 30 کلومیٹر دور گاؤں میں رہتے ہیں ۔ہماری زمین ہے جس کو روھڑی مین کنال سے ڈرائیکٹ سیراب کیا جاتاہے ۔اس واٹر کورس کی ماپ ساڑھے چار انچ ہے لیکن پانی فرہم کرنے والے عملدار اس مادول کو اس طرح بناتے ہیں کہ ہمیں اس ماپ کا پورا پانی نہیں ملتااور جوملتا ہے وہ ہماری زرعی آبادی کے لئے ناکافی ہےیعنی جو ہمارا حق ہے وہ پورا نہیں ملتااور ہمیں مجبور کیا جاتاہے کہ ہم پیسے دے کر زیادہ پانی حاصل کریں۔ابھی ان دنوں انہوں نے ہم سے پانچ لاکھ روپے 6 مہینوں کے لئے مانگے ہیں، ان پیسوں کے عوض وہ ہماری ماپ کوبڑھاکرساڑھے سات انچ کردیں گے،یہ رقم نہ دینےپر وہی کم پانی ملےگا،جسے زرعی آبادی اور آم کےدرخت وغیرہ سوکھ جائیں گے ،لہذا ہمیں رہنمائی چاہیے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟اگر پیسے نہیں دیتے توہمیں پورا حق نہیں ملتااور اگر پیسے دیتے ہیں تو اپنے حق سے بھی زیادہ پانی دیا جاتاہے۔
اس سلسلے میں ہمیں فتوی چاہئے کہ ہم جو پیسے دیتے ہیں ،یہ دینے پر ہمیں مجبور کیا جاتاہےاور اس آبادی سے جو ہمیں پیسے ملتے ہیں اس سے ہمارا گزر بسر ،کپڑے ، زکوۃ اور کھاناپینا وغیرہ ہوتا ہے۔توکیا حلال ہے یا نہیں ؟یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم انتہائی مجبوری کی حالت میں پیسے دے رہے ہیں۔
تنقیح: سائل سےبات ہوئی ،انہوں نے بتایاکہ یہ پورے گاؤں کے لوگوں کا مسٔلہ ہے اس سلسلے میں احکام بالا تک بات پہنچائی لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔ اس لئے پورے گاؤں والوں سے پیسے لے کر ادا کرتے ہیں تو وہ لوگ پیسے لے کر مادول (ماپ )بڑھادیتے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نہری پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرناآپ کا قانونی اور شرعی حق ہے ۔اس حق کو دینے کے لئے اگر ذمہ دار لوگ پیسے لیتے ہیں تو یہ رشوت ہے ۔رشوت کا لینا دینا عام حالات میں حرام ہے،تاہم صورتِ مسئولہ میں پیسے نہ دینے کی صورت میں آپ کو ضرر لاحق ہورہاہو اور اس حق کی وصولی کا بظاہر کوئی اور راستہ نہیں ہےتو اپنے حق کو وصول کرنے کے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہوگی ۔ایسی صورت میں رشوت لینے والا گنہگار ہوگا ، آپ پر کوئی گناہ نہیں۔آپ اللہ تعالی کے ہاں معذور شمارہوں گے۔
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 242)
(الأنهار العظام كدجلة والفرات غير مملوكة ولكل أن يستقي أرضه ويتوضأ به ويشرب وينصب الرحا عليه ويكري نهرا منها إلى أرضه إن لم يضر بالعامة) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «الناس شركاء في ثلاث في الماء والنار والكلأ» ولأن هذه الأنهار ليس لأحد فيها يد على الخصوص
البناية شرح الهداية (12/ 313)
(والثالث) ش: أي النوع الثالث: م: (إذا دخل الماء في المقاسم) ش: أي إذا دخل في قسمة قوم فقسمه الإمام بينهم م: (فحق الشفة ثابت) ش: في هذا القسم فالناس شركاء فيه في حق الشفة والسقي أنفسهم ودوابهم، وإن أتى في ذلك على المأكلة وليس لأهله أن يمنعوا أحدا من الشفة والسقي.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 269)
لكل أحد حق الشرب وحق الشفة في الأنهر الغير المملوكة أي له سقي أراضيه، وذلك لو أحيا أحد مواتا قرب النهر المذكور فله شق جدول وإسالة ماء النهر المذكور إلى أرضه التي أحياها ۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (8/ 409)
الدليل عليه ما ورد من النصوص في أن الضرورات تبيح المحظورات، منها قوله تعالى: {وما جعل عليكم في الدين من حرج} [الحج: 78] ولا شك أن في دفع الضرر عن نفسه دفع الحرج.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362)
وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: .....
الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا. وفي القنية الرشوة يجب ردها ولا تملك وفيها دفع للقاضي أو لغيره سحتا لإصلاح المهم فأصلح ثم ندم يرد ما دفع إليه اهـ، وتمام الكلام عليها في البحر ويأتي الكلام على الهدية للقاضي والمفتي والعمال.
(قوله: للسلطان) صفة لرشوة أي دفعها القاضي له وكذا لو دفعها۔
الفتاوى الهندية (3/ 331)
ونوع منها أن يهدي الرجل إلى رجل مالا بسبب أن ذلك الرجل قد خوفه فيهدي إليه مالا ليدفع الخوف عن نفسه، أو يهدي إلى السلطان مالا ليدفع الظلم عن نفسه، أو عن ماله وهذا نوع لا يحل الأخذ لأحد، وإذا أخذ يدخل تحت الوعيد المذكور في هذا الباب، وهل يحل للمعطي الإعطاء.؟
عامة المشايخ على أنه يحل؛ لأنه يجعل ماله وقاية لنفسه، أو يجعل بعض ماله وقاية للباقي.
محمداشفاق
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اشفاق بن عبد الغفور | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |