021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فقہی،لغوی اور عرفی لحاظ سے جوٹھے کی تعریف
70985جائز و ناجائزامور کا بیانکھانے پینے کے مسائل

سوال

پانی کی بوتل میں سے براہ راست پینے سے یا گلاس میں نکال کر پینے سے بوتل میں موجود بقیہ پانی جوٹھا کہلائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہی لحاظ سےکھانے پینے کی کسی چیز پر جوٹھا ہونے کا اطلاق تب ہوتا ہے جب اس میں سے اس طرح سے کھایا یا پیاجائے کہ کھانے والے کا لعاب اس بقیہ چیز کے ساتھ مل جائے،اگرچہ کم مقدار میں  ہی کیوں نہ ہو،بصورتِ دیگر وہ چیزفقہی لحاظ سے جوٹھا نہیں کہلائے گی،البتہ لغوی اور عرفی لحاظ سے جوٹھے کا اطلاق کھانے پینے کی بچی ہوئی چیز پر ہوتا ہے،اس لیے لغوی اور عرفی لحاظ سے اس پر جوٹھا ہونے کا اطلاق ہوگا،اس تفصیل کے مطابق سوال میں پوچھی گئی صورتوں کا حکم درج ذیل ہوگا:

1۔بوتل سے براہِ راست منہ لگاکر پینے سے بوتل میں موجود بقیہ پانی جوٹھا ہوجائے گا،جبکہ گلاس میں نکال کر پینے سے صرف گلاس میں موجود پانی جوٹھا ہوگا،بوتل میں موجودبقیہ پانی  کسی لحاظ سے جوٹھا نہیں ہوگا۔

2،3۔بسکٹ،پاپڑ اور چھالیہ کو عام طور پر منہ لگاکر نہیں کھایا جاتا،بلکہ ہاتھ کے ذریعے کھایا جاتا ہے،اس لیے بقیہ بچے ہوئےبسکٹ،پاپڑ اور چھالیہ پرفقہی لحاظ سے جوٹھے کا اطلاق نہیں ہوگا،البتہ لغوی اور عرفی لحاظ سے ان پر جوٹھے کا اطلاق ممکن ہے،یہی حکم پلیٹ میں سے منجمد عددی اشیاء کے استعمال کا بھی ہے۔

4۔کھیر،ربڑی،کسٹرڈ یا اس جیسی دیگر اشیاء میں سے چمچ یا کانٹے سے کھانے کی صورت میں بقیہ بچی ہوئی  پوری چیز  پر فقہی لحاظ سےجوٹھے کا اطلاق نہیں ہوگا،صرف وہ حصہ جوٹھا ہوگا،جس کے ساتھ چمچ یا کانٹا لگا ہو،البتہ عرفی اور لغوی لحاظ سے اس پر جوٹھے کا اطلاق ہوگا۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(1/ 222):
"مطلب في السؤر (قوله ويعتبر سؤر بمسئر) لما فرغ من بيان فساد الماء وعدمه باعتبار وقوع نفس الحيوانات فيه ذكرها باعتبار ما يتولد منها. والسؤر بالضم مهموز العين: بقية الماء التي يبقيها الشارب في الإناء أو في الحوض ثم استعير لبقية الطعام وغيره، والجمع الأسآر والفعل أسأر: أي أبقى مما شرب بحر وغيره، وظاهر القاموس أن السؤر حقيقة في مطلق البقية، والمعنى أن السؤر يعتبر بلحم مسئره طاهرا فسؤره طاهرا، أو نجسا فنجس، أو مكروها فمكروه، أو مشكوكا فمشكوك ابن ملك.
 (قوله اسم الفاعل من أسأر) أي مسئر اسم فاعل قياسي، مأخوذ من مصدر أسأر أو سأر كمنع، واسم فاعلهما السماعي سآر كسحار، والقياسي جائز كما في القاموس.
 (قوله لاختلاطه بلعابه) علة ليعتبر: أي ولعابه متولد من لحمه، فاعتبر به طهارة ونجاسة وكراهة وشكا منح. اهـ ط (قوله ولو جنبا إلخ) بيان للإطلاق".
"تاج العروس "(11/ 483):
" السؤر، بالضم: البقية) من كل شيء (والفضلة)" .
"القاموس الفقهي "(ص: 162):
"السؤر: بقية الشئ. ويقال للشرير: إنه سؤر شر. (ج) أسار. فضلة الشرب  من الفأرة، وغيرها: كالريق من الانسان وهذا هو المراد من قول الفقهاء: سؤر الحيوان طاهرأو نجس.
عند الفقهاء: هو الماء القليل الذي لا قاه فم حيوان، أو جسمه.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

26/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب