021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سورۃ القمان کی آخری آیت {ان اللہ عندہ علم الساعۃ الآیۃ}کی تفسیر
71063قرآن کریم کی تفسیر اور قرآن سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

قرآن میں ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو ہے اُس کا علم صرف اللہ کو ہے، جبکہ آج کل سائنس بہت ترقی کر گئی ہے۔ الٹراساؤنڈ پرانی ٹیکنالوجی ہوگئی ہے، نئی ٹیکنالوجی میں ماں کے پیٹ میں موجود حمل کے کچھ سیلز لیبارٹری میں چیک کیے جاتے ہیں۔ اگر کروموسومز ایکس وائے ہوں تو بچہ یقینی طور پر لڑکا ہوتا ہے، جبکہ سورۃ الرعد کی آیت نمبر 8 کے تناظر میں یہ رائے رکھنا درست ہوگی کہ اللہ نے یہ بات اُس دور کے افراد کو سمجھانے کے لیے کی تھی کہ اللہ کو غیب کا علم ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، کیونکہ اُس دور میں ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ آئندہ یہ علم بھی کسی کے پاس نہیں ہوگا، یعنی مستقبل میں انسان اپنی محنت سے اس قابل بن سکتا ہے کہ جدید آلات کی مدد سے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس بھی معلوم کرلے گا۔ اِس بات کی اللہ نے نفی نہیں فرمائی۔ اِسی طرح علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے قرآن کی آیت کی تفسیر کی تھی کہ "اللہ نے آج تک کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے" سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ مستقبل میں ایسا نہیں کرسکتا، اللہ چاہے تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اللہ کا فرمان "آج تک کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے" میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سورۃ لقمان کی آخری آیت میں درحقیقت اِس بات کا بیان ہے کہ تمام مغیبات کا براہِ راست علمِ کلی و ذاتی صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے، اللہ تعالی کے بغیر کوئی بھی شخص اُن مغیبات کو کلی طور پر بغیر کسی آلے یا ذریعے کے براہِ راست نہیں جان سکتا۔ البتہ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی اور کو اُن چیزوں کا جزوی علم کسی ذریعے یا واسطے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اگر اللہ تعالی چاہے تو وہ اپنے دیے ہوئے وسائل و آلات کے ذریعے ماں کے پیٹ میں موجود جنین کے بارے میں کسی کو علم حاصل کرنے کی صلاحیت دے سکتا ہے۔ لہذا الٹراساونڈ کے ذریعے رحم میں موجود بچے کے بارے میں معلوم کرنا یا اِس جیسے دیگر وسائل بروئے کار لاکر بارش، موسم وغیرہ کی معلومات حاصل کرنا اِس آیت کے منافی نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات واضح رہنی چاہیے کہ اِن چیزوں کے بارے میں جس درجے کا علم اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے، اُس درجے کا علم کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور اللہ تعالی کو بغیر کسی واسطے و وسیلے کے براہِ راست جب چاہے جتنا چاہے حاصل ہے، اِس طرح کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الآلوسي رحمہ اللہ تعالی: وأنه يجوز أن يطلع الله تعالى بعض أصفيائه على إحدى هذه الخمس، ويرزقه  العلم بذلك في الجملة، وعلمها الخاص به جل وعلا، ما كان على وجه الإحاطة والشمول لأحوال كل منها وتفصيله على الوجه الأتم. وفي شرح المناوي الكبير للجامع الصغير في الكلام على حديث بريدة السابق: خمس لا يعلمهن إلا الله على وجه الإحاطة والشمول كليا وجزئيا، فلا ينافيه اطلاع الله تعالى بعض خواصه على بعض المغيبات من هذه الخمس؛ لأنها جزئيات معدودة....  وهذا لا ينافي الاختصاص والاستئثار بعلم المذكورات بناء على ما سمعت منا من أن المراد بالعلم الذي استأثر سبحانه به العلم الكامل بأحوال كل على التفصيل، فما يعلم به الملك، ويطلع عليه بعض الخواص يجوز أن يكون دون ذلك العلم، بل هو كذلك في الواقع بلا شبيهة. وقد يقال فيما يحصل للأولياء من العلم بشيء مما ذكر إنه ليس بعلم يقيني. (روح المعاني: 11/109)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید،کراچی

27 جمادی الاولی 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب