021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایدھی سینٹر سے لے کر پالے جانے والے بچے کا وراثت میں حصہ
71025اقرار اور صلح کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ  زید ایدھی سینٹر سے ایک بچہ لایا اور اقرار کیا کہ میں اسے ایدھی سینٹر سے لایا ہوں اور یہ میرا بیٹا ہے۔ زید اور اس کی بیوی نے اس کی بیٹوں کی طرح پرورش کی اور کاغذات وغیرہ میں والد کی جگہ زید کا نام ہی ہے۔زید کی بہن ،بھائی،بیوی سب کو اس بات کا  علم تھا کہ یہ بچہ ایدھی سینٹر سے لایا گیا ہے۔اب وہ بچہ جوان ہو گیا ہے اور زید کا بھی انتقال ہو گیا ہے اور وہ جائیداد میں اس وجہ سے قابض ہے کہ میں زیدکا  بیٹا ہوں اور وہ کسی کو حصہ نہیں دے رہا۔

مقامی علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا نسب ثابت ہوگا یا نہیں؟بعض کہتے  ہے کہ ثبوت نسب  کی جو شرائط ہیں مقر لہ کا اقرار،یولد مثلہ لمثلہ اورمقر لہ کی تصدیق تینوں پائی جارہی ہیں ،لہذا نسب ثابت ہوگااور یہ عصبہ ہوکر ساری جا ئیداد کا مستحق ہوگا۔

جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ثبوت نسب کی ان شرائط کا تعلق اس بچے سے ہےجومجھول النسب ہو ۔ولد الزنا میں  مجہول النسب نہیں بلکہ ولد الزنا ہی شمار  ہوتا ہے اور یہ بچہ ایسا ہی تھا ،لہذا نسب ثابت  نہیں ہوگا اور جائیداد میں مرحوم کی بہن ،بھائی کا حصہ بھی ہوگا ۔اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں شرعانسب ثابت ہوگا یا نہیں؟ اور وہ لڑکا زید کا وارث ہوگا یانہیں؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں زید نےاس بات کا اقرار کیا ہےکہ وہ یہ بچہ ایدھی سینٹر سےلایا ہے بایں معنی کہ یہ بچہ اس کا نہیں کسی دوسرے کا ہے ،اور  اس کا یہ کہنا کہ یہ میرا بیٹا ہے یہ محبت و شفقت کے طور پر ہو یا اپنے لیے اقرار نسب کے طور پر دونوں صورتوں میں بچے کا نسب زید سے ثابت نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے زید کی وراثت میں سے کوئی حصہ ملے گا۔ 

حوالہ جات
قال العلامة الحصکفی رحمہ اللہ:(قال) عمرو (لصبي معه) أو مع غيره. عيني  (هو ابن زيد) الغائب (ثم قال هو ابني لم يكن ابنه) أبدا (وإن) وصلية (جحد زيد بنوته).
(الدر المختارمع رد المحتار: 584 /5)
قال ابن الہمام رحمہ اللہ: (قال) أي محمد في الجامع الصغير: (وإذا كان الصبي في يد رجل قال) أي ذلك الرجل (هو) أي الصبي (ابن عبدي فلان الغائب ثم قال: هو ابني لم يكن ابنه) أي لم يكن ذلك الصبي ابن ذلك الرجل (أبدا). قال صاحب النهاية ومعراج الدراية: يعني سواء صدقه العبد الغائب أو كذبه ،أو لم يعرف منه تصديق ولا تكذيب.(فتح القدیر:8/ 305)
قال جمع من العلماء: إذا كانت الأمة في يدي رجل ولدت غلاما فأقر مولى الأمة أن هذا الغلام من زوج حر، أو عبد زوجها إياه ،ثم ادعاه بعد ذلك لنفسه ،إن صدقه المقر له في ذلك لا تصح دعوى المولى لنفسه بعد ذلك، ولكن يعتق الغلام عليه بإقراره، وكذا إذا لم يصدقه المقر له في ذلك، ولم يكذبه بل سكت لا تصح دعوته أصلا، وكذلك إذا كان المقر له غائبا، أو ميتا حتى لم يعلم تصديقه ولا تكذيبه لا تصح دعوى المولى.(الفتاوی الہندیة:4/ 130)

سعد خان                      

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

72/ جمادی الاولی /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب