021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادا کی میراث سے پوتے پوتیوں کاحصہ
71060میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے دادا مرحوم جب  انڈیا سےہجرت کر کے آئے تو  حکومت وقت نے ان کو انڈیا کی متروکہ جائیداد کے عوض سکھر میں  پچس( 25)مربع گز  زمین دی ۔میرے دادا اس جگہ آئے تو حکومتی لوگوں نے یہ کہا کہ آپ نے پچس کی جگہ اسی (80)گز جگہ گھیر رکھی ہے ۔لہذا آپ  مزیدرقم ادا کریں۔پھر میرے دادا نے وہ رقم ادا کی یا  نہیں، مگر حکومت نے وہ جگہ نیلامی کے لیے حکومتی  فہرست میں ڈال دی ۔

بعد میں میرے والد صاحب نے وہ جگہ تعمیر کروالی اور ساتھ ساتھ حکومت سے کیس بھی لڑتے رہے کہ اگر کسی اور سے رقم لینی ہے تو مجھ سے لے لی جائے،کیونکہ  میرے والد اس جگہ کی مد میں کچھ رقم ادا کر چکے ہیں،لیکن حکومت جوکہ  اس جگہ کو کسی اور کو الاٹ کرچکی تھی ،اس  دوسرے شخص سے بھی واپس لے کر دوبارہ اسے  نیلامی کی فہرست میں داخل کر دیا۔

اس وقت زمین میرے قبضے میں ہے ،میں نے بہت کوشش کی کہ اس جگہ کے کاغذات بنوالوں، لیکن سپریم کورٹ کی پابندی عائد ہے ، اس وجہ سے نہیں بنوا سکا۔لہذایہ جگہ اگر میں اسٹیمپ پیپر کی بناء پر فروخت کرتا ہوں تو اصل قیمت سے پچہتر(75) فیصد کم پر فروخت ہوتی ہے کیونکہ قبضہ میرا ہے اور ملکیت سرکار کی ہے ،سوال یہ کہ اس زمین کی قیمت میں میرے دو اور جو بہن بھائی ہیں ،ان کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ 

تنقیح: سائل سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا  کہ اس وقت  ان کا قبضہ اسّی گز پر ہےاور دادا نے ادائیگی صرف پچس(25) گز زمین کی کی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ  صورت میں چونکہ آپ کےدادا کی ملکیت صرف پچس (25) گز زمین  ہے، لہذا صرف اتنی زمین دادا کے ترکے میں شامل ہے اور اسے ان کے تمام ورثہ کے درمیان شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔اگر پچس گزوالی زمین آپ کے والد صاحب کےحصے میں آئی ہے اور ان کے ورثہ میں صرف  آپ اور آپ کے بہن بھائی ہیں اور کوئی نہیں،تو یہ آپ تینوں کی بقدر شرعی حصص ملکیت ہے ،لہذا ان کی اجازت سے آپ اسے فروخت کر سکتے ہیں ۔ پچس گز کے علاوہ جو زمین ہے وہ چونکہ حکومت کی ملکیت ہے،لہذا اسے فروخت کرنا درست نہیں ۔

حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :أما الهبة بشرط العوض فهي هبة ابتداء، بيع انتهاء.
(رد المحتار علی الدر المختار: 8/ 420)
قال العلامة الکاسانی رحمہ اللہ:(ومنها): وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عندالبيع فإن لم يكن لا ينعقد.(بدائع الصنائع:5/ 147)
قال العلامہ الحصکفی رحمہ اللہ:(مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) .(الدر  المختار  مع رد المحتار:6/ 802)

سعد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27  جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب