021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کے ساتھ کمیشن پرقرض کا معاملہ کرنا
71161خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

میرا چھوٹا بھائی ایک کمپنی میں گاڑیوں کی بکنگ کے حوالے سے معاملہ کرتا تھا۔ وہ کمپنی سے ٹرک/ بس کی بکنگ کرتا تھا۔ گاڑی کی بکنگ کی قیمت عموما بیس سے تیس لاکھ ہوتی تھی اور گاڑی کی پوری قیمت تقریبا ایک کروڑ بیس لاکھ ہوتی تھی۔ گاڑی کی بکنگ کے بعد گاڑی کی تیاری شروع ہوتی اور جب گاڑی تیار ہوجاتی تو اس کے گاہک کے لیے بھائی کمپنی کے نمائندے کے ساتھ یا کمپنی کا نمائندہ اپنے ذرائع سے گاڑی کا گاہک تلاش کرتا۔ گاڑی کا خریدار ملنے کے بعد وہ خریدار کمپنی کے کھاتے میں گاڑی کی قیمت جمع کرواتا۔ اِس کے بعد کمپنی میرے بھائی کو اُس کی بکنگ کی رقم واپس کرتی اور اُس کے ساتھ فی گاڑی کمیشن دیتی، اون(owned) کی رقم ہوتی تو وہ بھی اُس کو ادا کی جاتی اور بعض گاڑیوں پر اگر ڈسکاونٹ ہوتا تو وہ بھی اُسے ادا کیا جاتا۔ کیا شرعی طور پر یہ معاملہ کرنا صحیح ہے؟ مذکورہ صورت میں اُس کا کام صرف گاڑی کی بکنگ کرنا ہے، خرید و فروخت سے اُس کا تعلق نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں کمپنی کے ساتھ معاملہ کرکے رقم ادا کرنے والا شخص درحقیقت کمپنی کو وہ رقم بطور قرض دیتا تھا اور اُس کے بعد بمع اصل رقم جو کچھ مزید منافع اُسے کمپنی کی طرف سے ادا کیے جاتے تھے وہ قرض پر اضافے کی وجہ سے سود کے زمرے میں آتے تھے۔ لہذا اُس کے لیے اپنی رقم سے زائد نفع لینا جائز نہیں تھا۔ البتہ مذکورہ بالا ناجائز عقد کو باآسانی درست کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ اِس طرح کہ بکنگ کرنے والا شخص کمپنی سے عقدِ استصناع کے ذریعے گاڑی کا خریدار بن جائے اورکمپنی کی جانب سے طے شدہ رقم گاڑی کی قیمت کی مد میں جمع کرائے۔ جب گاڑی تیار ہوجائے تو گاڑی کو اپنے قبضے میں لے کر یا خود آگے فروخت کردے یا کمپنی یا اُس کے نمائندے کو اپنا وکیل بنا کر اُس کے ذریعے کسی گاہک کو فروخت کروادے۔ اِس صورت میں اُس کے لیے گاڑی کی فروخت پر ملنے والا نفع جائز ہوگا۔ اسی طرح پہلے والے عقد میں بھی اگر وہ گاڑی تیار ہوجانے کے بعداپنے طور پر گاڑی کا کوئی خریدار لے آئے اور کمپنی اُسے اِس گاہک لانے کی بنا پر کوئی اجرت دے دے تو یہ اُس کے لیے جائز ہوگی۔البتہ اصل معاملہ جس میں اُس نے کمپنی کو رقم قرض دے کر اضافہ وصول کیا ہے، وہ بہرحال سود اور ناجائز ہے۔

حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: (کل قرض جر نفعا حرام) أي إذا کان مشروطا، کما مما نقلہ عن البحر. (رد المحتار:7/395)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت، ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة. (رد المحتار: 6/47)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (صح) الاستصناع (بيعا لا عدة) على الصحيح. (الد المختار مع رد المحتار: 5/224)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

3/جمادی الثانیہ/ 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب