021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بی فار یو (B4U) کمپنی کا حکم
71226شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب آپ سے مسئلہ مشہور انویسٹمنٹ کمپنی B4U سے متعلق پوچھنا ہے۔  تفصیلات یہ ہیں کہ یہ کمپنی لوگوں سے انویسٹمنٹ لیتی ہے اور انہیں پرافٹ دیتی ہے۔ اس کمپنی کے بقول ان کے کئی فزیکل کام ہیں جن میں یہ پیسے انویسٹ کرتی ہے۔ ان فزیکل کاموں کی باقاعدہ ایس ای سی پی میں رجسٹریشن بھی ہے۔

کمپنی کہتی ہے کہ وہ انویسٹرز کے پیسے ان کاموں میں لگاتی ہے اور جو نفع آتا ہے وہ 40 اور 60 فیصد کے حساب سے تقسیم کرتی ہے جس میں 40 فیصد کمپنی کا اور 60 فیصد انویسٹر کا ہوتا ہے۔ اس 60 فیصد کو وہ سمجھانے کے لیے اصل انویسٹمنٹ کی فیصد میں بیان کرتی ہے۔

ہم نے کمپنی سے اس کی اپنی B4U کی رجسٹریشن کے حوالے سے پوچھا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ گروپ آف کمپنیز ہے اور اس کی رجسٹریشن نہیں ہے۔   کچھ دن پہلے ایس ای سی پی نے ان کے بارے میں تنبیہی میسج بھی چلایا تھا۔

ان کا ایک شریعہ بورڈ بھی ہے جس کے شریعہ ایڈوائزر مفتی عمران الحق صاحب ہیں جو دار العلوم کراچی کے فاضل ہیں، وہ اس کے تمام کاموں کی نگرانی کرتے ہیں اور اسے جائز کہتے ہیں اور انہوں نے اپنی انویسٹمنٹ بھی کی ہوئی ہے۔ بی فار یو والے کہتے ہیں کہ تمام کام ان کے مشورے سے ہوتے ہیں۔ برائے مہربانی آپ بتا دیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز؟

یہ لوگ دار العلوم کراچی کا ایک فتوی بھی پیش کرتے ہیں لیکن اس میں تو واضح نہیں لکھا ہوا کہ یہ جائز ہے۔ اور آپ کے مدرسے کا ایک فتوی ہے جس میں اس کو ناجائز کہا گیا ہے لیکن اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ وہ غلطیاں درست کر لی ہیں۔ سب تفصیل ساتھ اٹیچ کر رہا ہوں۔ آپ رہنمائی کر دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور کمپنی بی فار یو کے شریعہ ایڈوائزر مفتی عمران الحق صاحب اور اس کے مالک سیف الرحمان خان صاحب سے تفصیلی گفتگو کے بعد مندرجہ ذیل چیزیں واضح ہوئیں:

1.     بی فار یو کی کچھ ذیلی کمپنیاں تو رجسٹرڈ ہیں لیکن بی فار یو خود رجسٹرڈ نہیں ہے اور قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔ اسے یا اس کی ذیلی رجسٹرڈ کمپنیوں کو قانوناً لوگوں سے رقوم لینے اور انہیں نفع دینے کا اختیار نہیں ہے۔ عقد شرکت انویسٹر اور بی فار یو کے درمیان ہوتا ہے۔

2.     بی فار یو کے کاروبار سے آنے والے نفع کی مقدار، اس کی تقسیم اور  دیگر تفصیلات ان کے شریعہ ایڈوائزر کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ ہم نے بھی ان کی تفصیلات طلب کیں تو نہیں مل سکیں۔

3.     کمپنی کے کام اور طریقہ کار کا شرعی آڈٹ بھی نہیں ہوتا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کمپنی درست طریقے سے کام کر رہی ہے یا نہیں۔

اس تفصیل کی روشنی میں اس کمپنی کے کاروبار میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں:

1.     حاکم کا ایسا قانون شرعاً لازم ہوتا ہے جس کی بنیاد عوام کی مصلحت پر ہو۔ چونکہ ماضی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جہاں لوگوں سے بڑے پیمانے پر جعل سازی کے ذریعے رقوم حاصل کی گئیں، لہذا ذمہ دار اداروں نے عوام کو ضرر سے بچانے کے لیے انویسٹمنٹ لینے والی کمپنیوں کے لیے انویسٹمنٹ کی اجازت لینا قانوناً لازم کیا ہے۔ یہ قانون مصلحت عامہ کی وجہ سے شرعاً لازم ہے اور  کمپنی اس قانون پر عمل نہیں کرتی جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

اس طرح کی کمپنیاں بسا اوقات حرام ذرائع سے آمدن حاصل کرتی ہیں یا لوگوں کی رقموں سے ہی انہیں پرافٹ دیتی ہیں جو کہ جائز نہیں ہوتا۔ بی فار یو کے بعض کاروبار (مثلاً الفا ٹی وی چینل) ایسے ہیں جن کی آمدن عموماً جائز نہیں ہوتی۔ یہ آمدن کتنی ہوتی ہے اور کس طرح تقسیم ہوتی ہے، یہ کمپنی تفصیل سے نہیں بتاتی۔ اسی طرح بعض کاروبار ایسے بھی ہیں (مثلاً سافٹ وئیر ہاؤس اور کرنسیز کی تجارت) جن میں حلال و حرام، دونوں طرح کا کام ہونا ممکن ہے۔ یہ  اپنا کام مکمل طور پر  نہ علماء کرام کو دکھاتی ہے اور نہ ہی اپنے شریعہ ایڈوائزر  کو دکھاتی ہےجس کی وجہ سے اس کی آمدنی  میں حرام آمدن مخلوط ہونے کا شبہ ہے اور اس سے اجتناب بہتر ہے۔

حوالہ جات
"أي: إن نفاذ تصرف الراعي على الرعية ولزومه عليهم شاؤوا أو أبوا معلق ومتوقف على وجود الثمرة والمنفعة في ضمن تصرفه، دينية كانت أو دنيوية. فإن تضمن منفعة ما وجب عليهم تنفيذه، وإلا رد۔۔۔."
(شرح القواعد الفقہیۃ للزرقاء، 1/309، ط: دار القلم)
 
"عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الحلال بين، والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات: كراع يرعى حول الحمى، يوشك أن يواقعه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا إن حمى الله في أرضه محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة: إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب."
(صحيح البخاري، 1/20، ط: دار طوق النجاة)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

 12/ جمادی الثانیۃ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب