021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی جائیداد اور گھر سے بے دخل کرنے کی دھمکی کے دباؤ میں طلاق نامے پر دستخط کرنا﴿جدید﴾
71284طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

حضرت میری شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی،تین سال پہلے نکاح ہوا تھا،رخصتی نہیں ہوئی تھی،سب کچھ ٹھیک تھا، ابھی کچھ مہینے پہلے میرے اور بیوی کے آپس کے تعلقات کچھ خراب ہوئے تھے،چھوٹے چھوٹے مسائل تھے جو کہ بات چیت سے حل ہوجاتے،لیکن یہ بات میرے والد صاحب کو پتہ چلی تو میرے والد صاحب نے مجھ پر دباؤ ڈالا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دو،میں گھر کی وجہ اور اپنے مسئلے کی وجہ سے ٹینشن اور ڈپریشن کا شکار ہوگیا،میں نیند کی اور ڈیپریشن کی دوا لینے لگا،میرے والد اور پھوپھی شادی کےخلاف ہوگئے ،جبکہ میری والدہ اور بہن نہیں چاہتے تھے کہ شادی نہ ہو،میرا رابطہ میری بیوی سے ختم کروادیا گیا،میں مزید ٹینشن کا شکار ہوگیا،میرے والد صاحب نے کہا کہ تمہاری والدہ بولیں بھی توتم ان کی باتوں میں نہیں آنا،بس چھوڑدو اس لڑکی کو،مجھے ابھی پتہ چلا ہے کہ محلے والوں نے میرے والد صاحب کو میری بیوی اور اس کے گھر والوں کے خلاف بھڑکایا اور ان کو میرے گھر والوں کے خلاف بھڑکایا۔

ان لوگوں نے میری طبیعت کا فائدہ اٹھایا اور میرا گھر برباد کردیا،میرے والد صاحب مجھے کہتے تھے کہ اگر باپ بیٹے کو بولے طلاق دیدو تو بیٹے کو حکم ماننا پڑے گا،میرے والد صاحب نے وکیل کے ذریعے طلاق کے کاغذات بھجوادئیے،میرا اللہ جانتا ہے میں نے دل سے اس پر سائن نہیں کئے،دباؤ میں آکر کئے،میں اور میری بیوی ساتھ رہنا چاہتے ہیں،مجھے اگر بات کرنے دی جاتی تو ایسا نہیں ہوتا،میرا مسئلہ حل ہوجاتا،ابھی اس بات کو بیس دن ہوئے ہیں،میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اور وہ بھی رہنا چاہتی ہے،حضرت میرا مسئلہ حل کروادیں،کیا میں اس سے رخصتی کرسکتا ہوں؟

مجھے فتوی دیں تاکہ میں اپنی زندگی آگے شروع کرسکوں،میں اپنی بیوی کے ساتھ ناجائز نہیں کرنا چاہتا،میرا مسئلہ حل کردیں،میرے والد صاحب نے کاغذات بھجوائے تھے،میں نے ان سے کچھ نہیں بولا اور نہ دل سے دستخط کئے ہیں،والد صاحب کے دباؤ میں آکر کئے،میں ڈیپریشن میں بھی تھا،مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

تنقیح:سائل سے فون پر استفسار سے معلوم ہوا کہ نکاح کے بعد سے لے کر طلاق نامے پر دستخط تک اس کی منکوحہ سے ملاقاتیں تو ہوتی رہیں،مثلاً کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے جانا،گھر میں ٹی وی لاؤنج میں ملنا جہاں کسی بھی وقت کوئی آ،جا سکتا ہے،لیکن ایسی تنہائی میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی جہاں جماع سے کوئی مانع نہ ہو۔

نیز طلاق نہ دینے کی صورت میں والد نے اسے جائیداد سے بے دخل کرنے اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دی تھی،یہ بھی واضح رہے کہ سائل اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جبراً دلوائی گئی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی اور طلاق واقع نہ ہونے کے لیے قتل ،یا ایسی مارپیٹ کی دھمکی ضروری نہیں جس سے کسی عضو کے تلف ہونے یا معذور ہونے کا اندیشہ ہو،جسے فقہ کی اصطلاح میں اکراہِ تام یا ملجئ کہا جاتا ہے،بلکہ اس حوالے سے اکراہِ ناقص بھی کافی ہے،جیسا کہ درج ذیل جزئیہ سے معلوم ہوتا ہے جس میں اس کی تصریح ہے کہ اگر کسی کو ضرب و حبس کے ذریعے کتابتِ طلاق پر مجبور کیا گیا تو طلاق واقع نہ ہوگی،کیونکہ ضرب وحبس سے  فقہاءکرام  اکراہ ناقص مراد لیتے ہیں،اکراہ تام کے لیے قتل یا قطع کے الفاظ استعمال کرتے ہیں:

"الفتاوى الهندية" (1/ 379):

"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان".

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(7/ 175):

"وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر، ومنهم من قدره بعدد ضربات الحد، وأنه غير سديد؛ لأن المعول عليه تحقق الضرورة فإذا تحققت فلا معنى لصورة العدد، وهذا النوع يسمى إكراها تاما، ونوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء أعني الحبس والقيد والضرب، وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا".

"رد المحتار" (6/ 128):

"(قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو  ".

اور اکراہِ ناقص کے تحقق کے لیے ضرب و حبس یعنی مارپیٹ اور قید کی دھمکی ضروری نہیں،بلکہ اس کے علاوہ بھی کسی پر ایسے طریقے سے دباؤ ڈالنے سے اکراہِ ناقص کا تحقق ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ شخص بادلِ ناخواستہ اس کام پر مجبور ہوجائے،جیسا کہ درج ذیل عبارات سے معلوم ہوتا ہے:

"الدر المختار " (6/ 129):

"(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال".

"الدر المختار " (6/ 141):

"(خوفها الزوج بالضرب حتى وهبته مهرها لم تصح) الهبة (إن قدر الزوج على الضرب) وإن هددها بطلاق أو تزوج عليها أو تسر فليس بإكراه خانية وفي مجمع الفتاوى: منع امرأته المريضة عن المسير إلى أبويها إلا أن تهبه مهرها فوهبته بعض المهر فالهبة باطلة، لأنها كالمكره.

قلت: ويؤخذ منه جواب حادثة الفتوى: وهي زوج بنته البكر من رجل فلما أرادت الزفاف منعها الأب إلا أن يشهد عليها أنها استوفت منه ميراث أمها فأقرت ثم أذن لها بالزفاف فلا يصح إقرارها لكونها في معنى المكرهة وبه أفتى أبو السعود مفتي الروم قاله المصنف في شرح منظومته تحفة الأقران في بحث الهبة".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ  :"(قوله: فليس بإكراه) لأن كل فعل من هذه الأفعال جائز شرعا والأفعال الشرعية لا توصف بالإكراه ط. قلت: نعم ولكن يدخل عليها غما يفسد صبرها، ويظهر عذرها وقد مر أن البيع ونحوه يفسد بما يوجب غما بعدم هذه الرضا، ويدل عليه ما يذكره بعده، فإن منع المريضة عن أبويها ومنع البكر عن الزفاف لا يغمها أكثر من الأفعال ولكن لا مدخل للعقل مع النقل. هذا وقدمنا أن ظاهر قولهم " الزوج سلطان زوجته " أنه يكفي فيه مجرد الأمر حيث كانت تخشى منه الأذى والله تعالى أعلم. (قوله: وبه أفتى أبو السعود) وكذلك الرملي وغيره ونظمه في فتاواه بقوله: ومانع زوجته عن أهلها ... لتهب المهر يكون مكرها

كذاك منع والد لبنته ... خروجها لبعلها من بيته

ثم قال: وأنت تعلم أن البيع والشراء والإجارة كالإقرار والهبة وأن كل من يقدر على المنع من الأولياء كالأب للعلة الشاملة فليس قيدا، وكذلك البكارة ليست قيدا كما هو مشاهد في ديارنا من أخذ مهورهن كرها عليهن حتى من ابن ابن العم وإن بعد وإن منعت أضر بها أو قتلها اهـ".

مذکورہ صورت میں والد نےآپ کو طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں جائیداد اور گھر سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی تھی،اس میں جائیداد سے بے دخلی کی دھمکی تو طلاق کے وقوع میں رکاوٹ نہیں،البتہ گھر سے نکالنے کی دھمکی کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ اگر آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ اگر آپ طلاق نامے پر دستخط نہیں کرتے تو والد آپ کو گھر سے نکال دیتےاور والد کے گھر سے نکالنے کی صورت میں آپ کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام ممکن نہیں تھا یا بہت مشکل تھاتو پھر مذکورہ صورت میں زبان سے طلاق کے الفاظ کہے بغیر مجبوراً محض طلاق نامے پر دستخط کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بصورت دیگر یعنی  آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں والدکا اکلوتا بیٹاہونے کی وجہ سے وہ آپ کو گھر سے نہیں نکالیں گے،صرف زبانی کلامی دھمکی دے رہے ہیں،یاوالد کے گھر سے نکالنے کی صورت میں آپ کے لیےعلیحدہ رہائش کا بندوبست زیادہ مشکل نہ تھا تو پھر جس طلاق نامے پر آپ نے دستخط کیے ہیں اس سےصرف ایک بائن طلاق واقع ہوئی ہے،کیونکہ اس میں تین طلاقیں تین الگ الگ جملوں میں تحریر کی گئی ہیں اور جس عورت کی رخصتی نہ ہوئی ہو وہ پہلی طلاق سے ہی بائن ہوجاتی ہے، اس کے بعد وہ طلاق کامحل نہیں رہتی،لہذا اب اگر آپ رخصتی کرنا چاہتے ہیں تو عورت کی رضامندی کے ساتھ نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا ہوگا اور اس کے بعد آپ کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

یہاں یہ اعتراض ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ جب تک شوہر نے دستخط نہیں کئے تھے طلاق نامہ غیر مؤثر تھا اور اس میں مذکورتین طلاقوں کا وقوع شوہر کے دستخط پر موقوف تھا،لہذا جب شوہر نے دستخط کئے تو یکبارگی تینوں طلاقیں واقع ہوجانی چاہئیں،کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شوہر کے دستخط سے پورےطلاق نامےکی یکبارگی تصدیق ہوگی،لیکن دستخط کے بعد طلاق کے وقوع میں مؤثر تو وہی جملے ہوں گےجو طلاق نامے میں لکھے گئے ہیں،دستخط تو فقط ان جملوں کو شوہر کی طرف منسوب کرنے اور ان جملوں کو مؤثر بنانے کے لیے ہے،اس کی وجہ سے طلاق نامے  میں مذکور جملوں کی ساخت اوران میں موجود ترتیب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،لہذا جب تین جملے بغیر حرف عطف کے علیحدہ علیحدہ لکھے گئے ہیں تو پہلے جملے سے ہی بیوی بائنہ ہوگئی تو دوسرے دو جملوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

اس کی تائید فقہاء کی عبارات میں مذکور درج ذیل جزئیہ سے ہوتی ہےجس میں غیرمدخول بہا (ایسی عورت جس کی نکاح کے بعد شوہر سے ایسی تنہائی میں ملاقات نہ ہوئی جہاں جماع سے کوئی طبعی،حسی یا شرعی مانع موجود نہ ہو) عورت کےشوہر کے کلام میں حرف عطف کے بغیر کئی طلاقوں کو بعد میں آنے والی شرط کے ساتھ معلق کیا گیا ہو،تو شرط کےوجود میں آنے کی صورت میں ایک ہی طلاق کے وقوع کا حکم لگایا گیا ہے،حالانکہ یہاں بھی تینوں طلاقوں کا وقوع شرط کے وجود پر موقوف ہے۔

حوالہ جات
"البحر الرائق " (3/ 319):
"وقيد بحرف العطف لأنه لو ذكر بغير عطف أصلا نحو إن دخلت الدار فأنت طالق واحدة واحدة واحدة ففي فتح القدير يقع واحدة اتفاقا عند وجود الشرط ويلغو ما بعده لعدم ما يوجب التشريك".
"فتح القدير للكمال ابن الهمام" (4/ 61):
"ولو لم يعطف أصلا بأن قال: إن دخلت فأنت طالق واحدة واحدة يقع عند الشرط واحدة بالاتفاق؛ لأنه إنما تعلق الأول ولغا ما بعده لعدم ما يوجب تشريكه معه".
"الدر المختار " (3/ 286):
"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب