021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دورانِ ڈیوٹی نماز باجماعت
71420نماز کا بیاننماز کےمتفرق مسائل

سوال

گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ کرام ٹائم ٹیبل کےلحاظ سےکلاس لیتے ہیں اور اسکول میں ظہر کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔بعض اوقات دو تین جماعتیں بھی ہوتی ہیں،تاہم کبھی کبھار یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ کسی استاد کی آخری دوتین کلاسیں مسلسل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اسے  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقعہ نہیں ملتا ۔

کیا اس استاد کے لئے کلاس چھوڑ کر باجماعت فرض نماز پڑھنے کی شرعا اجازت ہے کہ نہیں ؟ اور کیا فرائض کے ساتھ ساتھ سنن مؤکدہ بھی پڑھ سکتا ہے کہ نہیں؟یا وہ کلاسیں  لے کر پھر انفرادا نماز پڑھے ؟

2۔سکول میں اگر کسی وجہ سےوقفہ / بریک نہ ہوتاہو اور اساتذہ نے اپنے لئے چائے پینے کیلئے ایک مقررہ وقت مقرر کیا ہو اور بعض اساتذہ کو کلاسوں کی وجہ سے چائے پینے کا موقعہ نہ ملتا ہو تو کیا وہ اساتذہ چائے پینے کیلئے کلاسیں چھوڑ کر آ سکتے ہیں ؟

 3۔اسی طرح اساتذہ کیلئے پانی پینے اور طبعی ضرورت (استنجا وغیرہ)کیلئے کلاس درمیان میں چھوڑ کر جانے کی اجازت ہے؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1- اسکول کےملازمین کی حیثیت  فقہی اصطلاح میں  "اجیر خاص" کی ہے۔وہ  محکمہ تعلیم کی جانب سے دی گئی ہدایات کی روشنی میں طے کردہ پورے وقت میں مقررہ جگہ پر پڑھانے کے پابند ہیں، البتہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادئیگی کے لیے اسکول انتظامیہ کو وقفہ ضرور دینا چاہیے،تاہم اگر انتظامی مجبوریوں کی وجہ سےایک ساتھ سب کو وقفہ نہ دیا جاتا ہوتوآپ کے اسکول میں چونکہ ظہر کی نماز   کی ایک سے زیادہ  جماعتیں بھی ہوتی ہیں اس لیے اساتذہ کرام کو ایسی ترتیب بنانی چاہیے جس میں طلبہ کا تعلیمی حرج کم سے کم ہو اور نماز باجماعت ادا ہوجائے،مثلاً جس وقت جس کلاس کے طلبہ نماز پڑھیں ان کے اساتذہ بھی اسی وقت پڑھ لیں، اس طرح اگراسکول ٹائم میں مسلسل کلاسیں ہوں اور چھٹی کے بعد محلے کی مسجد میں باجماعت نماز میں شرکت ممکن ہوتو اس میں شرکت کرنی چاہیے، تاہم اگردوران کلاس نماز پڑھنے

کے علاوہ جماعت ملنے کی کوئی صورت نہ ہوتو اسکول میں ہونے والی جماعت میں شرکت کرنی چاہیے اور سنت مؤکدہ  بھی پڑھنی چاہییں،البتہ نوافل اورطویل اذکار وادعیہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔

2-اساتذہ کرام کاکلاس چھوڑ کرچائےپینےکےلیےجانا درست نہیں ۔

  3۔ اساتذہ  کرام کواپنی طبعی ضروریات پوری کرکے کلاس میں آنا چاہیے تاہم اس اہتمام کےباوجود اگر ضرورت  پڑ جائے توپانی وغیرہ پی سکتے ہیں اور طبعی ضرورت (قضائے حاجت  وغیرہ)کے لیے بھی باہرجاسکتے ہیں۔

حوالہ جات
شرح مجلۃ الأحكام العدلية  لسلیم رستم باز(1/ 236، رقم المادة:422،مکتبه حنفیه)
’’الأجیر علیٰ قسمین: الأوّل الأجیر الخاص، وهو الذی استوجر علیٰ أن یعمل للمستأجر فقط، کالخادم مشاهرةً عملاً موقتاً بمدة معلومة ‘‘.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/410)
وفي "فتاوى الفضل": إذا استأجر رجلا يوما لعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة، ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة.وفي "فتاوي أهل سمرقند": وقد قال بعض مشايخنا: إن له أن يؤدي السنة أيضا، واتفقوا أنه لا يبتدئ [يؤدي]نفلا وعليه الفتوى، وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق : المستأجر لا يمنع الأجير في المصر من إتيان الجمعة ويسقط من الأجر بقدر اشتغاله بذلك إن كان بعيدا، وإن كان قريبا لم يحط عنه شيء من الأجر، فإن كان بعيدا فاشتغل قدر ربع النهار حط عنه ربع الأجر، وإن قال الأجير حط من الربع مقدار اشتعاله بالصلاة لم يكن له ذلك، ثم قال: تحتمل أن يتحمل من الربع مقدار اشتغاله بالصلاة.
الدر المختارمع حاشیۃ ابن عابدین (6/70):
[ قال   العلامۃ   الحصکفی   رحمہ اللہ ]
وليس للخاص أن يعمل لغيره ،ولوعمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
 [ قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ ]
"قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة.قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى."

سیف اللہ تونسوی

 دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 12/جمادیٰ الأخری1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب