71329 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ ایک باپ کی تین بیٹیاں زندہ ہیں اور مذکر اولاد کوئی نہیں ہے، باپ فوت ہوگیا اور ان کی زوجہ بھی فوت ہوچکی ہے اور باپ کے فوتگی سے پہلے ایک بیٹی کا انتقال بھی ہوا ہے ۔اب ان تین بیٹیوں کو وراثت میں حصہ کس حساب سے ملے گا ؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مرحوم کے وارثین میں ان بیٹیوں کے علاوہ بھتیجوں کے نام بھی درج ہیں جو حصہ لینے کے لیے کوشاں ہیں ، کیا ان کو حصہ شرعی نقطہ نظر سے ملے گا یا نہیں ؟اگر نہیں حقدار حصہ لینے کے تو پھر ترکہ کا حصہ ان کے حق میں کیسے ہوگا ؟ رہنمائی فرمائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ مسئلہ میں مرحوم کے ترکہ کے تین حصے کیے جائیں :دو حصے مرحوم کی تین بیٹیوں میں اور ایک حصہ مرحوم کے بھتیجوں میں برابر تقسیم ہوگا اور مرحوم کی وہ بیٹی جو اس سے پہلے فوت ہوگئی ہے ،اس کو کچھ نہیں ملے گا ۔
ورثہ |
حصے |
فیصد |
تین بیٹیاں |
دو حصے |
66.66% |
بھتیجے |
ایک حصہ |
33.33% |
ٹوٹل |
تین حصے |
100٪ |
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ : قال رحمہ اللہ :(وللبنت النصف): لقولہ تعالی : "وإن کانت واحدۃ فلھا النصف " أو للأکثر الثلثان ، وھو قول عامۃ الصحابۃ رضی اللہ عنھم، وبہ أخذ علماء الأمصار.وقال أیضا فی ترتیب العصبۃ: ثم الأ خ لأب وأم ، ثم الأخ لأب ، ثم ابن الأخ لأب وأم ،ثم الأخ لأب .) البحرالرائق:9/383)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :قولہ :(والسدس لبنت الابن ): للبنات ستۃ أحوال : ثلاثۃ تتحقق فی بنات الصلب ، وبنات الابن ،وھی : النصف للواحدۃ ،والثلثان للأکثر ، و إذا کان معھن ذکر عصبھن.وقال أیضا: قولہ:(ویقدم الأقرب فالأقرب ):أی الأقرب جھۃ ، ثم الأقرب درجۃ ،
ثم الأقوی ،کقرابۃ باعتبار الترجیح ........فیقدم الأخ الشقیق علی الأخ لأب ،وکذا أبنائھم.
(ردالمحتار علی الدرالمختار:10/428،425)
سردارحسین
دارالافتاء،جامعۃ الرشید،کراچی
18/جمادی الثانیۃ۔1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سردارحسین بن فاتح رحمان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |