021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبضے کی زمین پر مسجد بنانا
71300وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

عرض یہ ہے کہ میری ملکیت میں ایک زمین ہے جس پر چند لوگوں نے قبضہ کررکھا ہے اور مزید یہ کہ اس پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع کررہے ہیں،اس زمین کے کاغذات بھی میرے نام ہیں،شریعت کی رو سے ان لوگوں کا یہ اقدام کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی زمین کو مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کرنے کے لیے اس جگہ کا مالک ہونا ضروری ہے،دوسرے کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے،ایسا کرنے والوں کو ثواب کے بجائے دوسرے کی زمین غصب کرنے کا گناہ ہوگا،جس کے بارے میں صحیح بخاری میں موجود روایت کا مفہوم ہے کہ جس نے بالشت بھر زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اسے اتنے حصے کی سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا،جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بدلے اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔

لہذا اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیت پر مبنی ہے تو ان لوگوں پر لازم ہے کہ اپنے اس ارادے کو ترک کردیں اور آپ کی زمین آپ کو واپس کردیں۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري" (4/ 106):
"عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، وكانت، بينه وبين أناس خصومة في أرض، فدخل على عائشة فذكر لها ذلك، فقالت: يا أبا سلمة، اجتنب الأرض، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ظلم قيد شبر طوقه من سبع أرضين»".
"صحيح البخاري" (3/ 130):
"عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين»".
"رد المحتار" (4/ 341):
" لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح".
"رد المحتار"(1/ 381):
" وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب