021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیرون ملک سےکسی کو پلاٹ خریدنے کا وکیل بنانا
71328وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں  مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص باہر ملک میں رہتا ہو اور پاکستان میں پلاٹ وغیرہ خریدنے کے لیے اپنے کسی رشتے دار کو پیسے دے اور وہ رشتےدار تمام کاغذی کاروائی اپنے نام سے کرے تاکہ باہر والے بندے کو بوقت ضرورت یہاں آنے جانے کی زحمت نہ کرنی پڑےتو کیا یہ جائز ہے؟ اور پلاٹ وغیرہ کس کی ملکیت ہوگا؟ برائے مہربانی تفصیل سے وضاحت فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت ِمسئولہ میں اس طرح کسی کا وکیل بن کر پلاٹ کی خریداری اور اس کی رضامندی سے اپنے نام سے کاروائی کرناجائز ہے،اور پلاٹ اصل مالک کی ملکیت میں ہی رہے گا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ فخر الدین الزیلعی رحمہ اللہ تعالی:(الوكالة بالبيع والشراء)وبشراء عبد أو دار جاز إن سمى ثمنا وإلا، لا.(تبیین الحقائق:4/257-259)
قال الشیخ نظام الدین رحمہ اللہ تعالی:التوكيل بشراء عبد أو أمة أو دار، فإن بين الثمن أو النوع تصح. (الفتاوی الھندیہ:3/573)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : (التوكيل صحيح) بالكتاب والسنة.....(وحقوق عقد لا بد من إضافته) أي ذلك العقد (إلى الوكيل، كبيع وإجارة وصلح، عن إقرار يتعلق به) ما دام حيا ولو غائبا.…وكله بشراء ثوب هروي أو فرس أو بغل صح ،وبشراء دار أو عبد جاز ،إن سمى .(الدر المختار:5/508،513،518)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

  18جمادی الثانیہ/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب