021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آن لائن بنات کا امتحان لینےاور پڑھانے کا حکم
71445جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے  میں کہ بندہ برما میں  بنین کے ایک مدرسہ کے شعبہ کتب میں مدرس ہے۔ 2020۔2021کے تعلیمی سال میں عالمی وبا کرونا کی وجہ سے جب سے مدارس کے کھولنے پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کردی گئی تو مہتمم صاحب کے حکم پر ویڈیوکال کے ذریعے تعلیم کو جاری رکھا گیا۔ موصوف مہتمم بنات کے مدرسے کے بھی مہتمم  ہیں ،بنات کے مدرسہ میں انہوں نےویڈیو کال (فیس بک ،مسینجر،یا زوم)کے ذریعے تعلیم جاری رکھنے کا حکم دیا ۔ اب وہاں بھی آن لائن تعلیم جاری ہے ۔ اب مہتمم صاحب نے بنین اور بنات دونوں مدرسوں میں  طلبہ سے تقریری امتحان لینے کا فیصلہ فرمایا اور بنات کے آن لائن تقریری امتحان کے لیے بنین کے اساتذہ کو ممتحن بنایا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا بنات کی اس طرح آن لائن تعلیم جائز ہے کہ استاد ویڈیو کال کے ذریعہ پڑھائے اور استادکی  سکرین پر تمام طالبات  نقاب میں دکھائی دیں ؟  بندہ بنین کا مدرس ہے ، اب مہتمم صاحب کے حکم پر بندہ کے لیے بنات سے مذکورہ بالا صورت کے ساتھ امتحان لینا شرعا درست ہے یا نہیں ؟ اگر جائز بھی ہو تو بندہ اپنی ذاتی مجبوری مثلا والدین کی ناراضگی، یا بیوی سے جھگڑے کا امکان یا شیخ کے منع کی وجہ سے اس طرح امتحان لینے سے معذرت کرلے تو شرعا قابل زجر وتوبیخ  شمار ہوگا یا نہیں ؟ براہ کرم حکم شرعی سے مطلع فرما کر ممنون ومشکور ہوں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نات کو پڑھانے کے لیے خواتین ہی ہونی چاہییں ۔اگر مجبوری ہو اور کوئی خاتون استاد نہ ہو تو عارضی طور پر مرد حضرات پڑھا سکتے ہیں ،لیکن ساتھ ساتھ خواتین اساتذہ تیارکرنے کا اہتمام بھی کرتے رہنا چاہیے۔آن لائن پڑھائی کی گنجائش بھی اس صورت میں ہےجب کلاس کا ماحول ہواور صرف آڈیو کال ہو ،ویڈیو کال کی گنجائش نہیں ،کیونکہ  ویڈیوکال میں پردے میں ہونے کے باوجود بھی فتنے کےبہت  خدشات ہیں ، لہذا مذکورہ مسئلہ میں جب امتحان الگ الگ لڑکی کا لیا جائے گا تو ویڈیو کال کے ذریعے ایک لڑکی سے بات کرنا بھی خلوت بالاجنبیہ کے حکم میں ہوگا جو کہ ناجائز ہے،اگر چہ وہ نقاب میں کیوں نہ ہو،اور دوسری خرابی یہ ہے کہ جب لڑکیاں سکرین پر نظر آئیں گی تو اس میں بھی فتنے کا قوی امکان ہے ، اس لیے نہ ایسی پڑھائی جائز ہے اور نہ امتحان لینا ،لہذا آپ کے لیے معذرت کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
    قال العلامۃ  ابن عابدین رحمہ اللہ : ولو کانت تصف یکون ناظرا إلی أعضائھا ،ویؤخذ مما ھنا تقییدہ بما إذا کان بغیر شھوۃ ،فلو بھا منع مطلقا،والعلۃ واللہ أعلم خوف الفتنۃ ،فإن نظر بشھوۃ إلی ملائتھا ،أو ثیابھا ،وتأملہ فی طول قوامھا ونحوہ قد یدعو إلی الکلام معھا إلی غیرہ ،ویحتمل أن تکون العلۃ کون ذلک استمتاعا بلا حاجۃ ،لا یحل بلا ضرورۃ.(ردالمحتار:9/535)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورۃ ، بل لخوف الفتنۃ کمسہ  وإن أمن الشھوۃ ؛لأنہ أغلظ.وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تحتہ: قولہ: (بل لخوف الفتنۃ) :أی الفجور بھا .قاموس.أو الشھوۃ ،والمعنی تمنع من الکشف لخوف أن یری الرجال وجھھا فتقع الفتنۃ؛لأنہ مع الکشف قد یقع النظر إلیھا بشھوۃ.
(ردالمحتارعلی الدرالمختار:2/79)
قال شیخ الإسلام المفتی محمد تقی العثمانی دامت برکاتھم: وبالنظر إلی ھذہ المذاھب الأربعۃ یتضح أنھا کلھا متفقۃ علی تحریم النظر إلی وجہ المرأۃ بقصدالتلذذ ،أو عند خوف الفتنۃ.
(تکملۃ فتح الملھم:4/223)

سردارحسین

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

19/جمادی الثانیۃ/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سردارحسین بن فاتح رحمان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب