021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کی پیداوار میں سے اپنے حصہ کے عوض کچھ اور خریدنا
71505خرید و فروخت کے احکام دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی زمین میں آب پاشی کا ٹیوب ویل لگایا اور دوسرے آدمی نے اُس ٹیوب ویل پر پانی نکالنے کے لیے مکمل سولر سسٹم لگایا۔ دونوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ اِس ٹیوب ویل کا پانی ایک دن زمین کا مالک استعمال کرے گا، خواہ اپنی زمین کی سینچائی کرے یا پانی دوسروں کو فروخت کرے اور دوسرے دن سولر سسٹم والا شخص اس ٹیوب ویل کا پانی استعمال کرے گا، خواہ وہ بھی اپنی زمین کی سینچائی کرے یا ٹیوب ویل کے مالک سے مزارعت پر لی گئی زمین کی سینچائی کرے یا پانی دوسروں کو فروخت کردے۔ سولر سسٹم والے نے ٹیوب ویل کے مالک سے مزارعت پر کچھ حصہ زمین کا لیا ہے، جس کی پیداوار میں پانچواں حصہ وہ زمین کے مالک کو دے گا اور باقی چار حصے خود اُس کے یعنی مزارع کے ہوں گے۔

اب سولر سسٹم والا (مزارع) پیداوار کا پانچواں حصہ (جو کہ ٹیوب ویل کے مالک کا حصہ بنتا ہے) سولر سسٹم پر خرچ شدہ رقم کے عوض وصول کرتا ہے اور زمین کے مالک کو نہیں دیتا۔ جب وہ اپنی خرچ شدہ رقم اُس پانچویں حصے سے پوری کرلے گا یا زمین کا مالک وہ خرچہ اُسے یک مشت ادا کردے گا تو سولر سسٹم مکمل طور پر زمین کے مالک کا ہوجائے گا۔ درج بالا معاملہ از روئے شریعت جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں سولر سسٹم کے بیچنے سےمتعلق فریقین کے درمیان جو کچھ بات طے ہوئی ہے، وہ سولر سسٹم کے فروخت کرنے کا معاہدہ ہے، نفسِ عقد ابھی نہیں ہوا ہے۔ لہذا سولر سسٹم کا مالک مزارعت کا پانچواں حصہ جب سولر سسٹم پر خرچ شدہ رقم کے عوض ہر سال اپنے پاس روکتا رہے گا تو وہ حصہ اِس کے حق میں دین ہوتا جائے گا، پھر اُسے اختیار ہے، چاہے تو سولر سسٹم پر خرچ شدہ رقم مکمل وصول کرنے کے بعد آخر میں دوسرے فریق کو سولر سسٹم فروخت کرکے مالکانہ حقوق اُس کے سپرد کردے اور چاہے تو ہر سال لیے گئے حصے کے بقدر سولر سسٹم کا اتنے فیصد حصہ دوسرے کو فروخت کردے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: أما تأجيل المبيع، والثمن العين، فمفسد مطلقا، كما سيذكره الشارح. (رد المحتار: 7/276)
قال العلامۃ الطوري رحمہ اللہ تعالی: أن هبة المشاع لا تجوز وبيع المشاع جائز وللإمام أن المقصود من الإجارة الانتفاع والانتفاع بالمشاع لا يمكن ولا يتصور تسليمه بخلاف المبيع فإن المقصود فيه الملك. (تکملۃ البحر الرائق: 8/24)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

20/جمادی الثانیہ/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب