021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے وقف کردہ پلاٹ پر مصالح مسجد کی غرض سے مدرسہ اور دکانیں تعمیر کرنا
71507وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

واقف نے ایک مارکیٹ میں ایک زمین مسجد کے لیے وقف کی اور اس کے لیے ایک متولی ( عالم دین ) مقرر کیا ۔ متولی صاحب کا ذہن یہ ہے کہ مسجد کا زمینی فلور اور مسجد کے اوپر والا حصہ مصالح مسجد یعنی تعلیم وغیرہ کے لیے وقف ہو اور اس وقف شدہ زمین پر باؤنڈری بھی لگا دی ۔باؤنڈری لگاتے وقت مسجد کے مختلف نقشے بنتے رہے جس میں ایک نقشہ اس طرح بھی تھا کہ وقف شدہ زمین کے زمینی فلور کا کچھ حصہ مسجد کے لیے اور کچھ تعلیم اور دوکانوں کے لیے ہو ، لیکن باؤنڈری کے اندر مسجد کی باقاعدہ بنیاد نہیں رکھی گئی ہے ۔ متولی کی نیت یہ ہے کہ زمینی فلور اورپھر مسجد کے اوپر والے حصے کو مصالح مسجد کے لیے وقف کرے اور اب واقف نے متولی کو اس معاملے میں یہ اختیار دیا ہے کہ متولی جس طرح مناسب سمجھے ، اس میں تصرف کرے ۔

مندرجہ ذیل امور مطلوب ہیں :

مسجد کے لیے وقف شدہ زمین پر باؤنڈری بنانے کے بعد مسجد کے مصالح کے لیے مسجد کے زمینی فلور میں مدرسہ اور دکانیں اور مسجد کے اوپر مدرسہ بنانا درست ہے ؟

متولی نے ایک مرتبہ نقشہ بناتے وقت باؤنڈری کے اندر کچھ حصہ پر مسجد کی نیت کی تھی اور لوگوں سے یہی کہتے تھے کہ یہاں سے یہاں تک مسجد رہے گی لیکن بنیاد وغیرہ نہیں رکھی تھی تو کیا متولی کے اس طرح نیت اور بولنے سے یہ مسجد شرعی بن گئی ہے یا نہیں ؟ نیز متولی صاحب کا اب اس حصہ پر بھی نیچے مصالح مسجد اور اوپر مسجد کی نیت ہے ۔ کیا متولی کی یہ نیت درست ہے ؟

متولی نے مسجد کے لیے  وقف شدہ زمین پر باؤنڈری لگا دی ہے اور باؤنڈری کے اندر ابھی تک مسجد کی بنیاد نہیں رکھی ہےاور اب واقف نے متولی کو اس طرح اختیار دیا ہے کہ آپ جس طرح مناسب سمجھیں ، آپ کو مکمل اختیار ہے ۔  اب اس اختیار کے تحت متولی کی یہ نیت کہ زمینی فلور اور مسجد کا اوپر والا حصہ مصالح مسجد کے لیے ہو ، معتبر ہو گی یا نہیں ؟

تنقیح :سائل نے فون پر بتایا کہ زمینی فلور پر مصالح مسجد اور مدرسہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ وقف کردہ پلاٹ کی جگہ روڈ سے کچھ نیچے ہے ۔ اگر زمینی فلور پر مسجد بناتے ہیں تو مسجد کافی نیچے ہو جائے گی ۔ زمینی فلور پر اگر مدرسہ اور مصالح مسجد کے لیے دکانیں وغیرہ بنائی جائیں اور پہلی منزل پر مسجد کی ترتیب رکھی جائے تو مسجد روڈ کے برابر آ جائے گی۔وقف کردہ پلاٹ میں اب تک باقاعدہ نماز کا اہتمام شروع نہیں ہوا ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر اس وقف شدہ پلاٹ پر باؤنڈری لگانے سے مراد پلاٹ کی حدود کی تعیین کرنا ہے ،مسجد کی بنیاد رکھنا نہیں ہے تو اس سےمسجد شرعی نہیں بنی، لہذااگر اب تک باقاعدہ مسجد کی بنیاد نہیں رکھی گئی ہے اور وہاں نماز کا اہتمام شروع نہیں ہوا ہے تو نچلی منزل اور دوسری منزل کو ابتداء سے ہی مدرسہ اور مصالح مسجدکے لیے دکانیں تعمیر کرنے کے لیے مختص کرنا اور پہلی منزل پر مسجد بنانا درست ہے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 358)
قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]- بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد، فهو كسرداب بيت المقدس هذا هو ظاهر الرواية وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية. اهـ
التحریر المختار( 80/2)
وقال الرافعی رحمہ اللہ تعالی ( قول المصنف لمصالحہ)لیس بقید بل الحکم کذلک اذا کان ینتفع بہ عامۃ المسلمین علی ما افادہ فی غایۃ البیان حیث قال اورد الفقیہ ابو اللیث سئوالا وجوابا فقال فان قیل الیس مسجدبیت االمقدس تحتہ مجتمع الماء والناس ینتفعون بہ قیل اذا کان تحتہ شیء ینتفع بہ عامۃ المسلمین یجوز لانہ اذا انتفع بہ عامتھم صار ذلک للہ تعالی ایضا
المبسوط للسرخسي (12/ 34)
قال (وإن جعل أرضا له مسجدا لعامة المسلمين وبناها وأذن للناس بالصلاة فيها وأبانها من ملكه فأذن فيه المؤذن وصلى الناس جماعة صلاة واحدة، أو أكثر لم يكن له أن يرجع فيه، وإن مات لم يكن ميراثا)؛ لأنه حرزها عن ملكه وجعلها خالصة لله تعالى قال الله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]. وقال - عليه الصلاة والسلام - «من بنى لله مسجدا، ولو كمفحص قطاة بنى الله تعالى له بيتا في الجنة»، ولا رجوع له فيما جعله لله تعالى خالصا كالصدقة التي أمضاها، ثم عند أبي يوسف يصير مسجدا إذا أبانه عن ملكه وأذن للناس بالصلاة فيه، وإن لم يصل فيه أحد كما في الوقف على مذهبه أن الوقف يتم بفعل الواقف من غير تسليم إلى المتولي، وعند محمد لا يصير مسجدا ما لم يصل الناس فيه بالجماعة، بنى على مذهبه أن الوقف لا يتم إلا بالتسليم إلى المتولي وعن أبي حنيفة فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط إقامة الصلاة فيه بالجماعة، وفي رواية غيره عنه قال إذا صلى فيه واحد يصير مسجدا، وإن لم يصل بالجماعة.

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعہ الرشید کراچی

23 جماوی الثانی 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب