021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک طلاق بیوی کے کام پر معلق کی اور بیوی نے وہ کام کر لیا{اگر تم ماں کے گھر گئی تو تمہیں ایک طلاق ہے۔ بیوی ناراض ہو کر چلی گئی تھی}
71546طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

میں نے پہلے بھی ایک بار بیوی کو اس طرح کہا تھا  کہ اگر تم ماں کے گھر گئی تو تمہیں ایک طلاق ہے۔ بیوی ناراض ہو کر چلی گئی تھی۔ میں اسے دو دن بعد واپس منا کر لے آیا تھا۔ کیا وہ طلاق واقع ہو گئی تھی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور صورت میں چونکہ جس کام پر آپ نے طلاق کو معلق کیا تھا، وہ کام پایا گیا لہذا آپ کی اہلیہ کو ایک طلاق ہو چکی ہے۔ چونکہ آپ انہیں عدت کے دوران ہی واپس لے آئے تھے لہذا رجوع بھی ہو گیا تھا اور آپ کی  اہلیہ آپ کے نکاح میں ہی ہیں، البتہ آئندہ آپ کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہے۔

حوالہ جات
والتعليق في الملك نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي: فنحو أن يقول لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق أو إن كلمت فلانا أو إن قدم فلان ونحو ذلك وإنه صحيح بلا خلاف؛ لأن الملك موجود في الحال، فالظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فكان الجزاء غالب الوجود عند وجود الشرط فيحصل ما هو المقصود من اليمين وهو التقوي على الامتناع من تحصيل الشرط فصحت اليمين، ثم إذا وجد الشرط، والمرأة في ملكه أو في العدة يقع الطلاق وإلا فلا يقع الطلاق، ولكن تنحل اليمين لا إلى جزاء حتى إنه لو قال لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق فدخلت الدار وهي في ملكه طلقت.
(بدائع الصنائع، 3/126، ط: دار الكتب العلمية)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

23/ جمادی الثانیۃ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب