021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹیکس کی ادائیگی میں زکوۃ کی نیت کرنا
71527زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی ریاست میں ظالمانہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہوں اور عوام ٹیکس ادا کرتے وقت زکوۃ کی نیت کرلے،یعنی زکوۃ کے طور پر ٹیکس ادا کردے تو کیا زکوۃ ادا ہوجائے گی؟ اور خود اِن ٹیکسوں کی کیا حیثیت ہے؟ شرعی رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حکومتیں اپنا نظام مملکت چلانے کے لیے اور ریاستی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے رعایا سے ٹیکس وصول کرتی ہیں، جبکہ زکوۃ ایک الگ عبادت ہے جس میں زکوۃ لینے والے کا مستحقِ زکوۃ ہونا لازم اور ضروری ہے۔ چونکہ موجودہ حکومتیں ٹیکس کو نہ تو زکوۃ کی مد میں وصول کرتی ہیں اور نہ ہی مستحقین زکوۃ پر اُسے خرچ کرتی ہیں، لہذا ٹیکس ادا کرتے وقت زکوۃ کی نیت کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: باب المصرف: أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة. (ومسكين من لا شيء له) على المذهب.(الدر المختار مع رد المحتار: 2/339)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: (منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة، فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة، كذا في فتح القدير. (الفتاوی الھندیۃ: 1/187)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

24/جمادی الثانیہ/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب