021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مکان ہبہ کرنے کا حکم
71532ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ مرحوم محمد بن حاجی عیسی نے اپنی ایک بیٹی کی شادی گلزار احمد سے کروائی  اور اسے اپنے گھر کے پاس اپنی زمین پر گھر بنا کر دیا   اور اس گھر کے آگے پیچھے  مرحوم اور گلزار دونوں اپنے جانور وغیرہ باندھتے تھے۔بقول گلزار احمد  میرے سسر نے مجھے قرآن کو گواہ بنا کر ٹھوس انداز میں کہاکہ میں نے تمہیں یہاں گھر بنا کر دیا ہےاور اس کے بعد بھی تمہیں جتنی زمین چاہیے  لے لینا ،لیکن یہاں سے کہیں اور نہ جانا۔مرحوم نے گلزار احمد کو جو زمین یا آس پاس کی جگہ جانور باندھنے،کچرا پھینکے کے لیے دی، اس کی کوئی حد بندی نہیں کی ۔گلزار احمد نے مرحوم محمد کے انتقال کے بعد اس کے بنائے ہوئے گھر کو ڈھا کر  مرحوم کی زمین پر ہی  دوسری جگہ نیا گھر بنا لیا۔اب سوال یہ ہے کہ مرحوم نے گلزار احمد کو اپنی زندگی میں جو زمین دی، اس کی کتنی حد بندی کرکے باقی زمین ورثہ میں تقسیم کی جائے گی؟مرحوم  محمد کی وفات کے بعد گلزار احمد نے مرحوم کا بنایا ہوا گھر ڈھا کر جو اس کی ہی زمین پر دوسرا گھر تعمیر کیا ،اس کا کیا حکم ہے؟مرحوم نے گلزار کو جو یہ کہا کہ تمہیں جتنی زمین کی ضرورت ہو  لے لینا اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں مرحوم نے اپنی زندگی میں جو گھر اپنے داماد گلزار کو بنا کردیا ،صرف وہی گھر  ان کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ   باقی زمین میں ان کا کوئی حق نہیں ہے۔اسی طرح گلزار احمد کا اس گھر کو ڈھا کر مرحوم کی وفات کے بعد  مرحوم ہی کی زمین پر دوسری جگہ گھر بنانا شرعا درست نہیں، کیونکہ  مرحوم کے انتقال کے بعد  ان کا ترکہ تمام ورثہ کی ملکیت ہے اور گلزارکا اس میں کوئی حق نہیں۔اگرچہ مرحوم نے زندگی میں اپنے داماد کو  یہ کہا تھا کہ اس کے بعد بھی تمہیں جتنی زمین چاہیے  لے لینا ،لیکن  داماد نے سسر کی زندگی میں زمین  نہیں لی اور نہ ہی  مرحوم نے یہ کہا کہ میرے  مرنے کے بعد  اسے زمین دی جائے، اس لیے اس بات کا شرعا کوئی اعتبار  نہیں۔

حوالہ جات
قال العلامة الحصکفی رحمہ اللہ: شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا، غير مشاع، مميزا، غير مشغول) ….(يعبر به عن الكل كوهبت لك فرجها وجعلته لك).
قال العلامة  ابن عابدین رحمہ اللہ: وفي المتن من الخانية بعد هذا قال: جعلته لابني فلان، يكون هبة؛ لأن الجعل عبارة عن التمليك، وإن قال: أغرس باسم ابني، لا يكون هبة، وإن قال: جعلته باسم ابني، يكون هبة؛ لأن الناس يريدون به التمليك والهبة اهـ.(رد المحتار:5/ 689)
قال العلامة الکاسانی رحمہ اللہ:فالإيجاب هو أن يقول الواهب: وهبت هذا الشيء لك أو ملكته منك أو جعلته لك أو هو لك .أما قوله: وهبت لك، فصريح في الباب.…وكذا قوله: جعلت هذا الشيء لك، وقوله: هو لك؛ لأن اللام المضاف إلى من هو أهل للملك للتمليك،  فكان تمليك العين في الحال من غير عوض، وهو معنى الهبة.(بدائع الصنائع:6/ 115)
 وقال أیضا:وأما الشرائط فأنواع: بعضها يرجع إلى نفس الركن، وبعضها يرجع إلى الواهب، وبعضها يرجع إلى الموهوب، وبعضها يرجع إلى الموهوب له.
أما الأول: فهو أن لا يكون معلقا بما له خطر الوجود والعدم من دخول زيد وقدوم خالد والرقبى ونحو ذلك ،ولا مضافا إلى وقت بأن يقول: وهبت هذا الشيء منك غدا أو رأس شهر كذا؛ لأن الهبة تمليك العين للحال ،وأنه لا يحتمل التعليق بالخطر والإضافة إلى الوقت، كالبيع.
(بدائع الصنائع:6/ 118)
قال جمع من العلماء:وأما الألفاظ التي تقع بها الهبة، فأنواع ثلاثة: نوع تقع به الهبة وضعا، ونوع تقع به الهبة كناية وعرفا، ونوع يحتمل الهبة والعارية مستويا. أما الأول: فكقوله: وهبت هذا الشيء لك، أو ملكته لك، أو جعلته لك، أو هذا لك، أو أعطيتك، أو نحلتك هذا، فهذا كله هبة.
(الفتاوی الھندیة:4/ 375)

سعد خان

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید، کراچی

/24جمادی الثانیہ/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب