021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میں تم کو فارغ کر دوں گایا تم میری طرف سے فارغ ہو سے طلاق کا حکم
71313طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں محمد زاہد جو پہلے بھی آپ سے فتوی  لے چکا ہوں،جو طلاق بائن کے  بارے میں تھا  ،اس پر بیگم کو اعتراض تھا، پھر یہی فتوی بنوری ٹاون سے بھی لیا، اس میں بھی طلاق بائن کا فتوی ملا۔پھر اہلیہ نے عدت مکمل کی اور پھر ہمارا نکاح ہو ا ،لیکن وہ مطمئن نہ تھیں ۔دو روز قبل ہم  طلاق کے موزو پر بات کر رہے تھے  ،تو میں نے کہا: میں تم کو فارغ کر دوں گا اور آج لکھ کر بھی دے دوں گا ،لیکن میرا قطعی نظریہ طلاق کا نہ تھا ، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ شوہر

بعد سلام عرض ہے کہ   میرے  اور  میرے  شوہر کے درمیان طلاق پر بات ہو رہی تھی ،میرے شوہر نے مجھ سے کہا  کہ آج  سے تم میری طرف سے فارغ ہو اورآج میں لکھ کر بھی دے دیتا ہوں کہ تم میری طرف سے فارغ ہو ۔ میں نے انٹر نیٹ پر سنا ہے کہ  یہ کنایہ کے الفاظ ہیں ۔اب ہمارے لیے کیا شرعی حکم ہے ؟ میرے شوہر پہلے بھی مجھے   دو بار طلاق دے چکے ہیں۔بیوی

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں میاں بیوی میں سے کس کی بات درست ہے کس کی نہیں،اس کا علم اللہ تعالی  اور میاں بیوی میں سے ہر ایک کو ہے،لہذا حرام حلال کے اس اہم مسئلے میں میاں، بیوی میں سے ہر ایک کو پوری دیانت داری اور سچائی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔البتہ  لکھ کر دیے گئے بیانیے کے مطابق اس مسئلہ کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

بیوی کے بیان کے مطابق اگر شوہر نے بیوی کے بیان کردہ الفاظ کہے ہوں کہ ''آج سے تم میری طرف سے فارغ ہو'' تو اس سے ایک طلاق ِبائن واقع ہوجائے گی ، کیو نکہ یہ الفاظ کنایہ میں سے ہے جن سے نیت یا مذاکرہ طلاق کے وقت  طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔

شوہر کے بیان کے مطابق اگر شوہر نے  یہ کہا ہو کہ ''میں تم کو فارغ  کر  دوں گا'' تو محض ارادہ طلاق سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بیوی کو اگر شوہر کے الفاظ''آج سے تم میری طرف سے فارغ ہو''کے بارے میں شک ہو کہ شوہر نے یہی الفاظ کہے ہیں یا  نہیں تو بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔

اگر بیوی کو مکمل یقین ہو کہ شوہر نے یہی الفاظ کہے ہیں تو ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جائے گی اور   بیوی کے بیانیہ کے مطابق شوہر انہیں پہلے بھی دو طلاقیں دے چکے  ہیں ،اس لیے بیوی کو چاہیے کہ  شوہرسے الگ ہوجائے اور ازدواجی تعلقات ختم کردے ،اس صورت میں اگر شوہر بیوی کی بات کا انکار کرے تب بھی ان کے لیے اس  طرح  بیوی سے تعلق قائم رکھنا ممکن نہ ہوگا،لہذا بہتر یہ ہے کہ وہ صراحتا طلاق دے کر بیوی کو الگ کردیں۔

حوالہ جات
قال العلامة  الحصکفی رحمہ اللہ:(ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب…..(ونحو:خلية ،برية ،حرام، بائن) ومرادفها كبتة ،بتلة (يصلح سببا.)قال العلامة  ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله ):خلية): بفتح الخاء المعجمة فعيلة بمعنى فاعلة: أي خالية إما عن النكاح أو عن الخير، ح: أي فهو علی الأول جواب، وعلى الثاني سب وشتم، ومثله ما يأتي . قوله:( برية): بالهمزة وتركه، أي منفصلة إما عن قيد النكاح أو حسن الخلق، ح.(رد المحتار:4/ 528)
قال العلامة ابن نجيم رحمہ اللہ:وحاصل ما في الخانية أن من الكنايات ثلاثة عشر لا يعتبر فيها دلالة الحال، ولا تقع إلا بالنية: حبلك على غاربك، تقنعي، تخمري…… وفيما عداها تعتبر الدلالة، لكن ثمانية تقع بها حال المذاكرة: أنت خلية، برية، بتة، بائن، حرام، اعتدي، أمرك بيدك، اختاري.(البحر الرائق:3/ 327)
قال العلامة قاضی خان رحمہ اللہ: وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق بثمأنية ألفاظ، ولو قال لم أنو الطلاق، لا يصدق قضاءً، وهي قوله: أنت خلية ،برية ،بتة ،بائن حرام….إلخ.(فتاوی قاضی خان:1/ 231)

سعد خان

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

24/جمادی الثانیہ/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب